Sublimegate Urdu Stories

میں رمشا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں پندرہ برس کی تھی اور نویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھی۔ گھر میں امی، ابو اور دو چھوٹے بہن بھائی تھے، جو مجھے بے حد عزیز تھے۔ میں گھر کی سب سے بڑی اولاد تھی اور روزانہ اسکول سے گھر تک کا سفر طے کرتی۔ پڑھائی کا شوق مجھے بچپن سے تھا۔ ان دنوں موبائل فون عام نہ تھے۔ اسکول میں میری ایک گہری سہیلی تھی، عائشہ۔ وہ ذہین تھی اور اس کے پاس موبائل فون تھا، جو وہ اسکول بھی لاتی تھی۔ حیرت کی بات یہ کہ اساتذہ کو اس کا کبھی پتا نہ چل سکا۔

میں اور عائشہ اکثر پانی پینے کے بہانے یا وقفے کے دوران اسکول کے پچھلے حصے میں واٹر ٹینک کے پاس جاتے اور وہاں موبائل فون استعمال کرتے۔ اس غربت اور ادھوری خواہشات سے بھری زندگی میں یہ لمحات میرے لیے بہار کی مانند تھے۔ ایک دن میں نے عائشہ سے اپنی خواہش ظاہر کی کہ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میرا اپنا موبائل فون ہو۔ وہ مسکرائی، لیکن کچھ بولی نہیں۔

زندگی اسی طرح گزرتی رہی۔ دو ہفتوں بعد عائشہ نے مجھ سے کہا کہ اس کا کزن عمیر مجھے پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اس سے ایک بار مل کر اس کی بات سنوں۔ یہ الفاظ میرے لیے بالکل نئے تھے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں کسی غیر مرد سے، بغیر کسی جائز رشتے کے، تعلق رکھوں۔ اس کی اس بات پر میں نے غصے کا اظہار کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی، ہمارے معاشرے میں ایسی باتیں غیر معمولی نہ تھیں۔ رات کے کھانے کے بعد جب میں اپنے بستر پر لیٹی تو عائشہ کی بات ایک بار پھر ذہن میں گونجنے لگی۔ ہمارا گھر کرائے کا تھا، جس میں دو کمرے تھے۔ ایک میں امی نے دکان کھول رکھی تھی، اور دوسرے میں ہم سب رہتے تھے۔ لیٹے لیٹے میں سوچنے لگی کہ کتنی معصوم تھی میں اس وقت۔

اگلے دن معمول کے مطابق اسکول کی وردی پہن کر ناشتے کے لیے بیٹھی۔ امی پراٹھے بنا رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آٹا صرف تین روٹیاں بنانے کے لیے تھا، جو امی نے ہم تینوں بہن بھائیوں کے لیے بنایا۔ میرے بہن بھائی چائے اور پراٹھے کے ناشتے میں مگن تھے، جب کہ میں نے کہا کہ مجھے بھوک نہیں اور اٹھ گئی۔ امی نے اصرار کیا، "بیٹا، سارا دن پڑھنا ہے، کچھ تو کھا لو، طبیعت خراب ہو جائے گی۔" مگر میں نے انکار کر دیا اور گھر سے نکل گئی۔ تین ماہ کی اسکول فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے پرنسپل، جو نہایت بدزبان تھی، روز مجھے کلاس میں آ کر تنبیہ کرتی تھی۔ میں سوچوں میں گم تھی کہ آج انہیں کیا جواب دوں گی۔ امی سے روز فیس کے بارے میں کہتی، اور امی کا وہی جواب ہوتا، "بیٹا، کل دے دیں گے۔" میں جانتی تھی کہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔

اس دن پرنسپل نے پوری کلاس کے سامنے مجھے ذلیل کیا اور مارا بھی۔ میں واش روم میں جا کر خوب روئی۔ انہوں نے کہا، "کل فیس لے کر آنا، ورنہ اسکول مت آنا۔" امتحانات قریب تھے، اور فیس نہ دینے کی صورت میں میرا پورا سال ضائع ہو جاتا۔ عائشہ نے مجھے تسلی دی، مگر حقیقت سے کون بچ سکتا تھا؟ امی کو بتایا تو وہ بھی رونے لگیں۔ ابو شراب نوشی کے عادی اور عیاش طبیعت کے مالک تھے۔ انہیں ہماری ضروریات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پہلے وہ نوکری بھی نہ کرتے تھے، لیکن ان کے ایک دوست نے سمجھا بجھا کر نوکری دلوائی۔ وہ اپنی تنخواہ خود پر خرچ کرتے اور کبھی کبھار امی کی دکان کا منافع بھی جھگڑ کر لے لیتے۔ اس دن جب ابو گھر آئے، شراب کے نشے میں تھے۔ میں نے جب فیس کے پیسے مانگے تو وہ جوتا اٹھا کر مجھ پر برس پڑے۔ تھک جانے کے بعد میں اپنے بستر پر لیٹ گئی اور آنسو بہاتے ہوئے اپنی پڑھائی چھوٹ جانے کا سوگ منانے لگی۔

دو دن بعد عائشہ گھر آئی اور بولی کہ اس نے میری فیس ادا کر دی ہے اور مجھے کل سے اسکول آنا چاہیے۔ میں اور امی اس کی بے حد شکر گزار ہوئے۔ امی نے جلد پیسے واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ میں دوبارہ اسکول جانے لگی اور بہت خوش تھی۔ میرا خواب ہمیشہ سے پڑھ لکھ کر کچھ بننے کا تھا۔ ایک دن اسکول کی چھٹی کے بعد جب ہم باہر نکلے تو ایک لڑکا میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ میں گھبرا گئی اور تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف چل دی۔ عائشہ اور میں واپسی پر الگ الگ جاتے تھے۔ وہ لڑکا میرا پیچھا کرنے لگا۔ دوپہر کا وقت تھا، اور آس پاس کوئی نہ تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے آواز دی، "سنیں!" میں تیزی سے چلتی رہی۔ اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، "میں عمیر ہوں، عائشہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔" میری جان نکل گئی۔ میں زور زور سے رونے لگی، جب کہ وہ زیر لب مسکرا رہا تھا، جیسے میری معصومیت اسے پیاری لگ رہی ہو۔ اس نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور چلا گیا۔ میں وہیں کھڑی اسے جاتا دیکھتی رہی۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی غیر مرد نے مجھے چھوا تھا۔ اس واقعے نے میری روح کو جھنجھوڑ دیا۔ گھر جا کر میں نے نہانے کی کوشش کی، جیسے اس کے چھونے سے میں ناپاک ہو گئی تھی۔

اس کے بعد عمیر نے روز میرا پیچھا کیا۔ برداشت کی حد پار ہو چکی تھی۔ ایک دن میں نے اسے خوب سنا دیا۔ وہ کچھ نہ بولا اور چلا گیا۔ اس کے بعد اس نے میرا پیچھا چھوڑ دیا۔ کچھ دن سکون سے گزرے، لیکن عائشہ نے ایک دن بتایا کہ میری فیس اس نے نہیں، عمیر نے ادا کی تھی اور اس نے یہ بات مجھ سے چھپانے کو کہا تھا تاکہ میری خودداری مجروح نہ ہو۔ یہ سن کر مجھے اچھا نہ لگا۔ میں خوب روئی کہ باپ کے ہوتے ہوئے مجھے کسی غیر کی مدد پر انحصار کرنا پڑا۔ لیکن یہ سوچ کہ کیا واقعی عمیر مجھ سے محبت کرتا ہے، میرے لبوں پر مسکراہٹ لے آئی۔ وہ اب میرا پیچھا نہ کرتا تھا، اور نہ ہی اس کی شکل نظر آئی۔ پتا نہیں کیوں، مجھے ایک کمی سی محسوس ہونے لگی۔ اس کی باتیں، اس کا پیار کا انداز میرے کانوں میں گونجتا۔ یوں لگتا جیسے میں نے کوئی غلطی کر دی، اس کا دل توڑ دیا۔

ایک دن عائشہ نے مجھے ایک موبائل فون دیا اور کہا کہ عمیر مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ میں گھبرا گئی اور بولی کہ میں یہ نہیں لے سکتی۔ عائشہ نے کہا کہ یہ اس کا فون ہے، بس عمیر سے بات کر لو۔ میں اپنی ہر بات عائشہ سے شیئر کرتی تھی۔ اس رات جب سب سو گئے، میں نے فون چیک کیا۔ عمیر کا ایک پیغام تھا: "رمشا، کیسی ہیں آپ؟ مجھے غلط نہ سمجھیں۔ میں ایک عزت دار گھر کا شریف لڑکا ہوں۔ میڈیکل کالج میں تیسرے سال کا طالب علم ہوں۔ آپ مجھے بہت اچھی لگیں۔ میں آپ کو اپنی زندگی کی ساتھی کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اگر آپ ہاں کریں تو میں اپنی والدہ کو آپ کے گھر بھیج دوں گا۔ آپ کی رائے میرے لیے قابل احترام ہے۔ اگر آپ کو میری بات سے کوئی اعتراض نہیں تو بس ہاں کا پیغام کر دیں۔ آپ کا عمیر۔"

یہ پیغام پڑھ کر میرا دل گدگدانے لگا۔ غصہ نہیں آیا، بلکہ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں نے جذبات میں بہہ کر اپنے دل کی بات عمیر سے کہہ دی۔ اس کا جواب آیا: "شکریہ میری محبت کو سمجھنے کے لیے۔ اب دنیا سے لڑ جاؤں گا، مگر آپ کی آنکھوں میں آنسو نہ آنے دوں گا۔ وعدہ رہا۔" اس کے بعد ہماری محبت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم روز رات کو پیغامات پر باتیں کرتے۔ اس نے کئی بار رشتہ بھیجنے کی بات کی، مگر میں نے کہا کہ پہلے میرا اسکول ختم ہو جائے اور وہ ڈاکٹر بن جائے۔

چھ ماہ گزر گئے۔ عمیر سے میری محبت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ میں اس کے لیے جان بھی دے سکتی تھی۔ لیکن اس کے اصرار پر میں نے اپنی ہر حد پار کر دی۔ اس کی ناراضی سے بچنے کے لیے اپنا دوپٹہ تک قربان کر دیا۔ وہ مجھ سے وہ گناہ کرنے پر زور دیتا جو میں کبھی نہ چاہتی تھی۔ جب میں نے انکار کیا تو اس نے مجھے چھوڑ جانے کی دھمکی دی۔ آخر کار غصے میں آ کر میں نے اس سے رابطہ ختم کر دیا۔

مزید پڑھیں

ایک شام جب میں جھاڑو لگا رہی تھی، امی نے آواز دی کہ دکان پر کوئی آیا ہے۔ دکان پر جا کر دیکھا تو عمیر کھڑا تھا۔ میں ڈر گئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ لمحہ عجیب سا خوشگوار تھا۔ وہ بولا، "مجھے معاف کر دو، میں غلط تھا۔" اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی، امی دکان میں آ گئیں۔ عمیر نے فوراً میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور بوکھلاہٹ میں بولا، "ایک دودھ کا ڈبہ۔" میں نے امی سے نظر بچا کر مسکرایا، اور وہ بھی مسکرا دیا۔

ہم ایک بار پھر قریب آ گئے۔ لیکن اسکول ختم ہونے سے پہلے ابو نے میری شادی اپنے ایک دوست سے طے کر دی، جو ان کی عمر کا تھا اور کافی دولت مند تھا۔ جب مجھے یہ پتا چلا، میں نے امی کو عمیر کے بارے میں سب بتا دیا۔ امی نے مجھے مارا اور سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ جب ابو کو پتا چلا، انہوں نے بھی مجھے خوب مارا اور صاف کہا کہ کل میرا نکاح اس شخص سے ہو گا۔ اس رات میں امی کی گود میں روتی رہی۔ جب امی سو گئیں، میں نے عمیر کو پیغام کر کے سب کچھ بتا دیا۔ وہ پریشان ہو گیا اور بولا کہ وہ ابو سے بات کرے گا۔ میں نے سختی سے منع کیا۔ ہم دونوں ساری رات روتے رہے۔ اس نے کہا، "رمشا، تم مجھ سے پیار کرتی ہو نہ؟" میں نے کہا، "جان سے زیادہ۔" اس نے کہا، "میں تمہیں لینے آ رہا ہوں۔ اس نکاح سے بچنے کا یہی راستہ ہے۔ ماں باپ کب تک ناراض رہتے ہیں؟ بس میرا ہاتھ تھام لو۔" اس نے مجھے آدھا گھنٹہ سوچنے کے لیے دیا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر کار میں نے فیصلہ کیا کہ اس کے ساتھ چلی جاؤں گی۔

مزید پڑھیں

وہ رات میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ میں نے سوئے ہوئے ماں باپ اور بہن بھائی پر آخری نظر ڈالی اور گھر کی دہلیز پار کر دی۔ عمیر موٹر سائیکل پر کھڑا تھا۔ اس نے مجھے لے کر تیز رفتاری سے بائیک چلائی۔ سات ماہ بعد پتا چلا کہ عمیر میڈیکل کا طالب علم نہ تھا۔ وہ میٹرک پاس تھا اور اس کی ایک کمیونیکیشن شاپ تھی۔ اصل دھوکا یہ نہ تھا۔ اصل دھوکا یہ تھا کہ اسے مجھ سے نکاح کی کوئی خواہش نہ تھی۔ وہ ایک آوارہ شخص تھا، جس کا کام لڑکیوں کو پھنسا کر ان کا استحصال کرنا تھا۔ اس نے مجھے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رکھا۔ جب اس کا دل مجھ سے بھر گیا، وہ اپنے اوباش دوستوں کو لے آتا، جو مجھ پر ظلم ڈھاتے۔ وہ مجھے تالا لگا کر چھوڑ جاتا۔ میں اس کی خدمت کرتی، کھانا بناتی، کپڑے دھوتی، لیکن ذرا سی غلطی پر وہ مجھے بے رحمی سے مارتا۔ ابو کی مار میں شفقت تھی، لیکن عمیر کی مار میں صرف وحشت تھی۔

میں حاملہ تھی، لیکن عمیر کو اس کا علم نہ تھا۔ ایک رات جب وہ آیا، اس نے کہا، "چائے بنا، رمشا۔" میں خاموشی سے اپنی ذات کے زوال کا سوگ مناتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ وہی آنکھیں تھیں جو کبھی اپنی سی لگتی تھیں، لیکن اب اجنبی ہو چکی تھیں۔ وہ میری نظروں سے بچ کر باہر چلا گیا۔ دل کہتا تھا کہ کہیں نہ کہیں میرا عمیر اس کے اندر موجود ہے۔ میں اس کی محبت سے اسے واپس لاؤں گی۔ لیکن وہ میرا عمیر نہ تھا۔

ایک رات پولیس نے اپارٹمنٹ پر چھاپہ مارا۔ عمیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ پولیس نے عمیر کو مارا اور مجھ سے بدسلوکی کی۔ انہیں لگا کہ میں اپنی مرضی سے یہ کام کرتی ہوں۔ میں عمیر کے خلاف کچھ نہ بولی، شاید یہ محبت تھی یا پاگل پن۔ مجھے چھ ماہ کی جیل ہوئی۔ عمیر کے دوستوں نے اسے چھڑا لیا، لیکن مجھ پر جھوٹا کیس بنا دیا گیا۔ جیل میں ہر دن بھاری تھا۔ امی کی یاد ستانے لگی۔ جیل سے نکلنے کے بعد عمیر کا کوئی پتا نہ تھا۔ میں ایک اجنبی شہر میں تھی، گھر کا راستہ نہ جانتی تھی۔ بھوک اور کمزوری سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

ایک رات شدید بارش میں میں نے سڑک پر ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس کی صورت دیکھ کر ایک پل کے لیے سارے غم بھول گئی۔ لیکن بارش نے اس کی سانسوں کو چھین لیا۔ اس کی موت نے مجھے توڑ دیا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے دفن کیا۔ اس کے بعد میں سڑک کنارے بھکاریوں کی طرح پڑی تھی۔ ایک بوڑھے شخص نے مجھے پناہ دی۔ اس کی بہو آمنہ نے میری دیکھ بھال کی۔ کچھ دن بعد اس بوڑھے نے مجھے رحمان سے نکاح کی پیشکش کی۔ حالات کے ہاتھوں مجبور، میں نے ہاں کر دی۔ رحمان ایک محافظ تھا، لیکن میری قسمت نے پھر دھوکا دیا۔ ایک شادی میں ایک دولت مند شخص وحید کو میں پسند آ گئی۔ رحمان نے مجھے اسے فروخت کر دیا۔

مزید پڑھیں

وحید نے مجھے قید کر لیا۔ وہ روز تشدد کرتا اور مجھے بازارو عورت بنا دیا۔ میرا جسم بیماریوں سے چور ہو گیا۔ ایک دن شدید بخار اور کمزوری سے میں گر پڑی۔ وحید نے اپنے آدمی سفیان کو حکم دیا کہ مجھے قتل کر دے۔ سفیان نے مجھے گھٹنوں کے بل بٹھایا، لیکن جب اس نے میرا نام سنا، وہ لڑکھڑا گیا۔ میں نے کہا، "تم میرے محسن ہو، مجھے اس جہنم سے نجات دو۔" اس نے مجھے نہیں مارا۔ اس نے اپنی کہانی سنائی کہ وہ ایک مجرم تھا، جس نے اپنی بیوی نیلم کو غلطی سے قتل کر دیا تھا۔ اس نے مجھے بچانے کا فیصلہ کیا۔

سفیان مجھے اپنے گاؤں لے گیا۔ اس نے میری دیکھ بھال کی اور مجھے دبئی بھیجنے کا بندوبست کیا۔ ایئر پورٹ پر وحید کے آدمیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس نے مجھے بھاگنے کو کہا اور خود ان کا مقابلہ کیا۔ وہ اپنی جان دے کر میری جان بچا گیا۔

آج میں پچیس برس کی ہوں۔ دبئی میں ایک ہوٹل میں باورچی کے طور پر عزت کی زندگی گزار رہی ہوں۔ طوفان تھم چکا ہے، لیکن گزرے دنوں کی یادیں میری باقی زندگی سے زیادہ طویل ہیں۔

(ختم شد)