Sublimegate Urdu Stories

سوچتی ہوں، اپنی زندگی کی کہانی کہاں سے شروع کروں؟ میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی جب امی کا انتقال ہوا۔ کیا بتاؤں، اس دکھ نے دل پر کیا قیامت ڈھائی۔ یہ صرف وہی بچے جان سکتے ہیں جن کی مائیں ان کے لڑکپن میں ہی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ ابو شاید اسی دن کے منتظر تھے۔ امی کے فوت ہوتے ہی انہوں نے دوسری شادی کی رٹ لگا دی۔ ابھی امی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ ہم تین بہن بھائی تھے، اور اب سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر رہنے لگے۔ سوچتی تھی کہ وہ بھی انسان ہو گی، وقتی طور پر سنگدل بنی ہوئی ہے، کبھی تو رحم کھائے گی۔ مگر سوتیلی ماں نے ہم پر ظلم کی انتہا کر دی۔ 

خاص طور پر اس کے ظلم کا نشانہ زیادہ تر میں ہی بنتی تھی، کیونکہ میں بڑی تھی۔ سارا دن گھر کا کام کرنا، وہ بھی چھوٹی عمر میں، اور اگر کوئی کام نہ کرتی تو سزا ایسی کہ قیامت ہی ٹوٹ پڑتی۔ وہ خود تو مارتی ہی، ابو سے بھی پٹواتی۔ میں ننھی سی جان، کبھی دھوپ میں برآمدے میں، کبھی سردی میں سسکتی رہتی، اور وہ آرام سے اپنے سجے ہوئے بیڈروم میں نرم گدوں پر سوئی رہتی۔ مجھے ڈر لگا رہتا کہ کہیں وہ مجھے اسکول سے نہ ہٹا لے، جبکہ میری ماں کو مجھے پڑھانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ میں سوتیلی ماں کے ہر حکم کو بلا چون و چرا بجا لاتی، صرف اس لیے کہ اس کا دھیان میری تعلیم سے نہ ہٹے۔ سارا دن کا کام ختم کر کے، رات کو دس بجے برتن دھو کر اور کچن صاف کر کے جب اپنے کمرے میں لیٹتی، تب زیرو کے بلب کی مدھم روشنی میں پڑھتی، یا ٹیبل لیمپ پر کاغذ چڑھا کر تا کہ اس کی توجہ میری طرف نہ جائے، اور میں آدھی رات تک پڑھتی رہتی۔

میٹرک کے فوراً بعد سوتیلی ماں نے صاف کہہ دیا کہ اب گھر سے باہر قدم رکھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اب میں بڑی ہو گئی ہوں۔ میں بہت روئی۔ ابو سے منت سماجت کی کہ آپ تو کہتے تھے، میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بناؤں گا، اور اب آپ مجھے میٹرک کے بعد پڑھنے نہیں دے رہے؟ آخر میرا کیا قصور ہے؟ میں سارا کام کرتی ہوں، امی کا خیال بھی رکھتی ہوں، پھر بھی اچھے نمبر لاتی ہوں۔ ابو نے صرف اتنا کہا کہ یہ بھی تمہاری ماں ہیں، تمہارے بھلے کی سوچ رہی ہیں، ان کی مرضی کا احترام کرنا چاہیے۔ میں نے جواب دیا کہ وہ مجھے گھر کی نوکرانی بنا کر رکھنا چاہتی ہیں، اس لیے کالج میں داخلہ نہیں دلا رہیں۔ مگر ابو نے کہا کہ گھر کا کام تو سب لڑکیاں کرتی ہیں۔ اگر تم کرتی ہو تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں، تمہیں سلیقہ آئے گا اور یہی سلیقہ تمہارے کام آئے گا۔

مجھے پڑھائی کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ابو کے انکار کی وجہ سے میں بیمار پڑ گئی۔ ایک دن میری خالہ آئیں اور مجھے بیمار حالت میں دیکھ کر ابو سے بات کی۔ خالہ اور چچا نے مل کر انہیں قائل کیا اور یہ بھی کہا کہ ہم اس کی تعلیم کا خرچہ اٹھائیں گے، آپ اسے پڑھنے دیں۔ آخرکار ابو نے ان کی بات مان لی اور مجھے کالج میں داخل کرا دیا۔اب میں صبح سویرے اٹھ جاتی تھی۔ نماز اور تلاوتِ کلام پاک کے بعد گھر کی صفائی کرتی، پھر کالج کے لیے تیار ہوتی۔ شہر میں اسکول اور کالج جانے کے لیے عام طور پر تانگے چلتے تھے، میں نے بھی تانگہ لگوا لیا۔ ابھی گھریلو کاموں سے فارغ نہ ہو پاتی تھی کہ تانگے والا دروازہ بجاتا رہتا۔ اسے میری خاطر کافی دیر انتظار کرنا پڑتا تھا۔ میں جلدی جلدی کام ختم کرتی اور تیار ہو کر کالج چلی جاتی۔ واپسی پر شدید بھوک لگتی جو برداشت سے باہر ہوتی، مگر ماں کو کوئی پروا نہ تھی۔ کالج سے آ کر میں آٹا گوندھتی، روٹیاں پکاتی، مگر ماں سالن دیر سے بناتی، یہاں تک کہ بھوک ختم ہو جاتی۔ میں زہر مار کر تھوڑا سا کھانا کھاتی اور تھکی ہاری شام کو پھر کام میں جُت جاتی۔

رات کا کھانا تیار کرنا، برتن دھونا، سب کے بستر بچھانا، پانی کے مٹکے بھر کر رکھنا، بھینس کو پانی پلانا اور چارہ دینا۔غرض یہ سب میرے ہی ذمے تھا۔ جب کہ ماں برقع اوڑھ کر محلے میں آج کسی کے گھر، تو کل کسی کے گھر چلی جاتی۔ اگر ان میں سے کوئی کام بھی رہ جاتا، تو کالج سے نکالنے کی دھمکیاں ملتیں۔ رات کو پڑھنے بیٹھتی، تو ایک دو بج جاتے، یوں نیند بھی پوری نہ ہوتی اور صبح پھر تڑکے بیدار ہونا پڑتا۔مجھے گھر میں سکون نہیں ملتا تھا۔ ہر وقت والد اور سوتیلی ماں کا خوف میری جان نکالے رکھتا تھا۔ اگر کسی دن لڑائی ہو جاتی، تو میں ہفتہ بھر بھوکی پیاسی نڈھال پڑی رہتی۔ حیرت ہوتی تھی کہ کیا دوسری شادی کر کے باپ اتنے بدل جاتے ہیں؟ انہیں میری ذرا بھی پروا نہیں تھی۔

 شاید وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ میں ایسے ہی مر جاؤں۔ بیمار پڑتی تو ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر جاتے تھے، مگر خدا کو میرا جینا مقصود تھا، تب ہی ہفتہ ہفتہ بھوکی پیاسی، بیمار رہ کر بھی زندہ رہی۔بخار چڑھتا، تو مہینے بھر نہ اترتا اور میں اسی حالت میں کام کرتی رہتی۔ پانی میں ہاتھ ڈالتی، برتن اور فرش دھوتی، مگر کسی کو مجھ پر رحم نہ آتا۔ ان دنوں میں محبت کے دو بولوں کو ترستی تھی۔ کاش میری اپنی ماں ہوتی، تو اسے میری پروا ضرور ہوتی۔ ان مسلسل پریشانیوں نے مجھے نیم پاگل سا کر دیا اور میں پراگندہ ذہن رہنے لگی، جس کی وجہ سے میری تعلیم پر بھی برا اثر پڑا۔آخر ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی کب تک ایسے حالات کا مقابلہ کرتی؟ میں آخرکار تھک گئی۔ کام سے تو مفر نہ تھا، البتہ پڑھائی میں کمی آ گئی۔ جب تھک جاتی، تو پڑھنے کے لیے بیٹھ ہی نہ پاتی اور گہری نیند سو جاتی۔ پتا ہی نہ چلتا کہ کب صبح ہو گئی۔انٹر میں میری انگلش اور اکنامکس میں کمپارٹمنٹ آ گئی۔ میں بہت روئی۔ چچا نے کہا، رونا مت، میں تمہیں ٹیوٹر رکھ دیتا ہوں تاکہ تمہارا سال ضائع نہ ہو۔ پتا نہیں والد صاحب کو کیسے رحم آ گیا۔ 
چچا نے ایک ٹیوٹر کا انتظام کر دیا اور والد صاحب نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ ایک ماہ تو آرام سے گزر گیا، مگر دوسرے ماہ ٹیوٹر نے مجھے ایک چھوٹا سا رقعہ لکھا، جس میں میری شرافت کی تعریف کی گئی تھی۔ لکھا تھا کہ اتنی اچھی اور شریف لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ تمہارے والدین کتنے خوش نصیب ہیں کہ تم جیسی لڑکی ان کے گھر پیدا ہوئی۔بات صرف اتنی تھی کہ جب میں پڑھتی تھی تو کبھی ٹیوٹر کی طرف نہیں دیکھتی تھی، چادر اوڑھ کر بیٹھتی، نگاہیں نیچی رکھتی۔ شاید آپ یقین نہ کریں، میں نے صرف اس کی آواز سنی تھی، شکل کبھی نہیں دیکھی۔ شاید میری یہی ادائیں اس شخص کو پسند آ گئیں۔ اس نے دوسرے خط میں عندیہ دیا کہ اگر میری رضا ہو تو وہ اپنے والدین کو میرے والد صاحب کے پاس رشتہ لے کر بھیجے، کیونکہ وہ مجھ سے شادی کا خواہش مند ہے۔

بس مجھ سے یہ غلطی ہو گئی کہ میں نے اس کا خط پھاڑا نہیں، بلکہ اپنے بکس میں کپڑوں کے نیچے رکھ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن جب میں خالہ کے ہاں گئی ہوئی تھی، سوتیلی ماں نے میرے بکس کی تلاشی لی اور وہ دو خطوط برآمد ہو گئے جو ٹیوٹر نے مجھے لکھے تھے۔ بس پھر کیا تھا، ماں نے طوفان برپا کر دیا۔ میں کس سے کہتی کہ یہ خطوط میں نے نہیں لکھے، نہ ہی ان کا کوئی جواب دیا ہے، اور نہ ہی ان میں کوئی بیہودہ بات تھی۔ پھر بھی ماں نے مجھے بدنام کر کے رکھ دیا۔اشفاق، جو میرا ٹیوٹر تھا، اسے فوراً ہٹا دیا گیا۔ میں نے آخری دن اسے یہ بتا دیا کہ خطوط پکڑے گئے ہیں اور میری والدہ دراصل سوتیلی ہیں۔ 
یہ سن کر وہ بہت افسردہ ہوا اور کہا، افسوس ہے، آپ میرے پیغام کی حفاظت نہ کر سکیں۔ اگر مجھے اس بات کا علم ہوتا کہ آپ کی والدہ سوتیلی ہیں، تو میں بخدا آپ کو خط نہ لکھتا۔اشفاق بہت اچھے خاندان سے تھا، میں بھی ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ بے شک ہم نے ایک دوسرے سے اظہارِ محبت نہیں کیا تھا، مگر اس کی شخصیت، پڑھانے کا طریقہ، بات چیت کا انداز سب کچھ بہت اچھا تھا، اور انسان انہی خوبیوں سے پیار کرتا ہے۔ جب کوئی محبت کے دو بولوں کو ترس رہا ہو اور کوئی اس کی تعریف کر دے، تو کم عمری میں محبت کی چنگاری جڑ پکڑ لیتی ہے۔ بس وہ میرے دل میں وہ چنگاری سلگا کر چلا گیا، اور ایسا گیا کہ پھر اس کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ ماں نے فوراً میرے لیے ایک رشتہ ڈھونڈ لیا۔ وہ لوگ کسی طور ہمارے معیار کے نہیں تھے، مگر پھر بھی میری شادی کر دی گئی۔ آج بیس سال ہو گئے ہیں اُس کی یاد کو دل میں چھپائے ہوئے، مگر آج تک اس کی آواز کانوں میں گونجتی ہے جیسے وہ مجھے پڑھا رہا ہو۔ میرے دل سے اس کی یاد کبھی نہیں جا سکی۔ اسے شاید علم بھی نہ ہو کہ میں کہاں ہوں، اور اس کی یاد میں کوئی تڑپتا رہا ہے۔

جب بھی دکھی ہو کر اکیلے میں روتی ہوں، تو اُس کی یاد آ کر مجھے تسلی دیتی ہے۔ اس کی آواز کانوں میں گونجتی ہے کہ اچھے انسانوں کی آزمائش دکھوں سے ہوتی ہے، رونا نہیں، صبر کرنا، اللہ سے دعا مانگا کرو، وہی صبر کا اجر دینے والا ہے۔ وہ تسلی کے بول آج تک میرے ذہن سے محو نہیں ہوئے۔ میرے سسرال میں کوئی بھی فرد پڑھا لکھا نہیں ہے۔ یہ لوگ کافی لاپرواہ اور گندے رہتے ہیں، گھر کی صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ جبکہ میں بے حد نفاست پسند ہوں۔ میں تو کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتی تھی، مگر غلط خاندان کی بھینٹ چڑھ گئی۔ شوہر بہت بد مزاج ملا، اگر موڈ اچھا ہو تو بات کر لیتا، ورنہ کئی دن بات نہ کرتا۔ اگر میں بیمار ہو جاتی، تو اور بھی زیادہ بد مزاج ہو جاتا۔ جانے میری کیسی قسمت ہے؟ جب میری شادی ہوئی، وہ صرف میٹرک پاس تھے۔ میں نے منتیں کر کے انہیں بی اے کروایا، مگر جتنا انسان پڑھ بھی جائے، خاندانی اثر نہیں جاتا۔ اللہ نے مجھے پانچ بچے دیے ہیں۔ انہی کی پرورش میں دن رات کٹ رہے ہیں، انہی کے سہارے زندگی گزر رہی ہے۔
آج بھی دل چاہتا ہے کہ ایک بار اشفاق مل جائے تو اس سے پوچھوں کہ تم نے مجھے خط لکھا، اگر ذرا سی ہمت کر کے میرے چچا سے ہی کہہ دیتے کہ گل نسرین سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تو شاید میری زندگی بدل جاتی، اور تم بھی من کی مراد پا لیتے۔ اب تو یقین ہے کہ اگر کبھی وہ زندگی میں کہیں مل بھی جائے، تو میں اسے پہچان نہ سکوں گی۔ اس کی شکل و صورت کبھی آنکھوں میں محفوظ نہ ہو سکی، بس یاد ہیں تو اس کے ہاتھ۔ ہاں، اس کے ہاتھوں پر ایک نشان تھا، مگر وقت کے ساتھ نشان بدل جاتے ہیں۔ خدا کرے وہ جہاں بھی ہو، خوش رہے، اور کبھی مجھے نہ ملے۔ کیونکہ اگر مل بھی جائے تو کیا، اور نہ ملے تب بھی کیا؟ میرے دامن میں اس کے لیے کچھ نہیں، بس یادوں کے سوا۔ اگر کسی کو یاد رکھنا گناہ ہے، تو ہاں، میں گناہ گار ہوں۔ خدا مجھے معاف کرے۔ مگر دل اور روح کے معاملات جسمانی معاملات سے مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو مرتے دم تک ساتھ رہتی ہیں، اور انسان کا ان پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔