Sublimegate Urdu Stories

رات کی تاریکی پورے راستے پر سایہ فگن تھی۔ ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں گاڑی کے شیشے پر گر رہی تھیں، اور ونڈ اسکرین وائپر بار بار پانی کے قطروں کو صاف کر رہا تھا۔ حمزہ کی گاڑی سنسان ہائی وے پر دوڑ رہی تھی۔ اردگرد گھنا جنگل تھا، جس کے بلند درخت سڑک کے کنارے عجیب و غریب سائے بنا رہے تھے۔ کبھی کبھار بادلوں کی اوٹ سے چمکنے والی بجلی لمحہ بھر کے لیے پورے منظر کو روشنی میں نہلا دیتی، اور پھر ایک بار پھر سب کچھ تاریکی میں ڈوب جاتا۔

حمزہ نے گاڑی کی رفتار کچھ کم کی۔ اس کا موبائل سگنل کھو چکا تھا، اور راستے میں کسی اور گاڑی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ "یہ راستہ دن میں تو اچھا خاصا نارمل لگتا ہے، لیکن رات کو... عجیب سنسان سا ہو جاتا ہے،" اس نے خود سے کہا۔
اچانک، اس کی نظر سڑک کے کنارے ایک دھندلی سی شبیہہ پر پڑی۔ کوئی شخص کھڑا تھا۔یا شاید کوئی سایہ؟ حمزہ نے پلکیں جھپکائیں اور توجہ سے دیکھا۔ وہ ایک لڑکی تھی، سفید لباس میں ملبوس، جس کے لمبے سیاہ بال اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ بھیگی ہوئی تھی، جیسے کافی دیر سے بارش میں کھڑی ہو۔

حمزہ کا دل ایک لمحے کے لیے تیز دھڑکا۔ "اس وقت؟ اس سنسان جگہ پر؟" وہ خود سے سوال کر رہا تھا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے، اس کا ضمیر جاگ اٹھاوہ اکیلی تھی، مدد کی ضرورت ہو سکتی تھی۔ اس نے گاڑی آہستہ کی اور کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا۔ "آپ یہاں اس وقت کیا کر رہی ہیں؟" اس نے قدرے محتاط لہجے میں پوچھا۔ لڑکی نے آہستہ سے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں بے حد گہری اور اداس تھیں۔ "مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ کیا آپ مجھے آگے کسی محفوظ جگہ تک چھوڑ سکتے ہیں؟" اس کی آواز دھیمی مگر کسی پراسرار کشش سے بھری ہوئی تھی۔

حمزہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا۔ اسے اس لڑکی میں کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا، لیکن شاید یہ محض اس سنسان رات کا اثر تھا۔ آخرکار، اس نے دروازہ کھول دیا۔ "بیٹھ جائیں،" وہ بولا۔ لڑکی آہستہ سے گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔ حمزہ نے گاڑی دوبارہ چلائی، لیکن جیسے ہی اس نے رفتار بڑھائی، ایک عجیب سی ٹھنڈک گاڑی میں پھیلنے لگی۔ اس نے ہیٹر آن کیا، لیکن سردی جوں کی توں برقرار رہی۔
کچھ منٹوں تک خاموشی چھائی رہی، پھر حمزہ نے پوچھا، "آپ کہاں جا رہی ہیں؟ اور اس وقت یہاں کیا کر رہی تھیں؟"

لڑکی نے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا، "مجھے نہیں معلوم... میں بھٹک گئی ہوں۔" حمزہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ "بھٹک گئی ہیں؟ آپ کے پاس موبائل ہے؟ کسی کو کال کر سکتی ہیں؟" نورا نے آہستہ سے سر ہلایا۔ "میرا موبائل کھو گیا ہے۔ اور میں جس سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں، وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا۔" حمزہ کو اس کے الفاظ عجیب لگے، لیکن وہ مزید کچھ نہ بولا۔ گاڑی میں پھر خاموشی چھا گئی۔ لیکن اچانک، ریڈیو خودبخود آن ہو گیا۔ حمزہ نے گھبرا کر ریڈیو بند کر دیا۔ "یہ کیسے آن ہو گیا؟ میں نے تو ریڈیو آن ہی نہیں کیا تھا!"

نورا نے کوئی جواب نہیں دیا، بس اپنی انگلیوں کو بےچینی سے مسلتی رہی۔
کچھ دیر بعد، جب گاڑی ایک موڑ سے گزری، حمزہ نے بیک ویو مرر میں جھانکا، اور اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ پیچھے کی سیٹ پر ایک دھندلی شبیہہ نظر آ رہی تھی! وہ فوراً پلٹا، لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔ پسینے کی ایک بوند اس کی پیشانی پر نمودار ہوئی۔ اس نے نورا کی طرف دیکھا، جو خاموشی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ "کیا تم نے... کچھ محسوس کیا؟" اس نے دھیمی آواز میں پوچھا۔ نورا نے آہستہ سے سر ہلایا۔ "وہ ہمیں دیکھ رہا ہے..." "کک... کون؟" حمزہ کی آواز لرز گئی۔

نورا نے آہستہ سے آنکھیں بند کیں۔ "وہ جو مجھے کبھی بھی جانے نہیں دے گا..."
گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، مگر یہ عام خاموشی نہیں تھی۔ یہ وہ بھیانک سکوت تھا، جو طوفان سے پہلے چھا جاتا ہے۔ حمزہ نے نورا کی بات سن کر اس کی طرف دیکھا، مگر وہ نظریں جھکائے بیٹھی رہی، جیسے کچھ کہنے سے گھبرا رہی ہو۔ باہر بارش تھم چکی تھی، مگر جنگل کے پتوں سے پانی ٹپکنے کی آوازیں اب بھی آ رہی تھیں، جیسے کوئی ان کے آس پاس ہی چل رہا ہو۔

حمزہ نے گہری سانس لی اور گاڑی کی رفتار تھوڑی تیز کر دی۔ "دیکھو، اگر تمہیں کسی سے خطرہ ہے، تو مجھے بتاؤ۔ میں مدد کر سکتا ہوں۔" نورا نے مدھم آواز میں کہا، "یہ کوئی عام خطرہ نہیں ہے، حمزہ۔" حمزہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ "تمہیں میرا نام کیسے معلوم؟" نورا نے آہستہ سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو کسی عام انسان میں نہیں ہوتا کوئی چھپی ہوئی اذیت، کوئی گہرا خوف۔ "تمہاری گاڑی کی چابی پر لکھا تھا،" اس نے دھیرے سے کہا۔ حمزہ نے بےاختیار اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چابی نکال کر دیکھی۔ اس پر واقعی "ایچ" لکھا تھا، مگر نورا کا یوں نوٹس کر لینا... اس نے سوچا کہ شاید وہ کچھ زیادہ ہی سوچ رہا تھا۔
"ہمیں کہیں رکنا ہوگا۔" نورا نے اچانک کہا۔

"کیوں؟" حمزہ نے حیرت سے پوچھا۔
"بس آگے مت جاؤ۔"
حمزہ نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ خوفزدہ لگ رہی تھی، جیسے اسے کچھ معلوم ہو، مگر وہ کہہ نہ پا رہی ہو۔ حمزہ کو عجیب احساس ہوا، لیکن وہ بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آگے کچھ فاصلے پر ایک پرانا، ویران ریسٹ ہاؤس نظر آیا۔ یہ جگہ سالوں سے بند تھی، مگر دروازہ کھلا ہوا تھا، جیسے کسی نے ابھی ابھی اندر قدم رکھا ہو۔ "یہاں ٹھہر سکتے ہیں۔" حمزہ نے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔ نورا ہچکچاتے ہوئے گاڑی سے اتری اور حمزہ کے پیچھے چلنے لگی۔ ریسٹ ہاؤس کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ حمزہ نے موبائل کی ٹارچ آن کی۔ گرد سے اٹی ہوئی میزیں، ٹوٹی ہوئی کرسیاں، اور دیواروں پر پرانے پوسٹرز سب کچھ اس جگہ کی ویرانی کا پتہ دے رہا تھا۔

حمزہ نے اردگرد نظر دوڑائی۔ "یہ جگہ کتنی پرانی لگ رہی ہے۔ لگتا ہے سالوں سے کسی نے یہاں قدم نہیں رکھا۔"
نورا خاموش کھڑی رہی۔
حمزہ نے آگے بڑھ کر ایک میز سے گرد جھاڑی، مگر جیسے ہی اس نے ہاتھ آگے بڑھایا، ایک دھندلی سی سرگوشی گونجی:
"چلے جاؤ..."
حمزہ ایک دم پیچھے ہٹا۔ اس نے نورا کی طرف دیکھا، مگر وہ ساکت کھڑی تھی، جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
"تم نے... کچھ سنا؟" حمزہ کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔
نورا نے آہستہ سے کہا، "وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔"
حمزہ کا دل دھڑک اٹھا۔ "کک... کون؟"
نورا نے آنکھیں بند کر لیں۔ "یہ جگہ... پہلے بھی ایک کہانی رکھتی ہے۔ جو یہاں آتا ہے، وہ واپس نہیں جا پاتا۔"
حمزہ نے زبردستی ہنسی ہنسی۔ "تم مذاق کر رہی ہو، نا؟"
نورا نے کوئی جواب نہ دیا۔
حمزہ نے ایک بار پھر اردگرد دیکھا اور سوچا کہ شاید یہ سب اس کی تھکن کا نتیجہ ہے۔ "یہ سب وہم ہے۔ ہمیں یہاں زیادہ دیر نہیں رکنا چاہیے۔"
مگر جیسے ہی اس نے دروازے کی طرف قدم بڑھایا، دروازہ ایک زوردار دھماکے سے خودبخود بند ہو گیا۔
اندھیرے میں نورا نے ایک لمبی سانس لی اور دھیرے سے بولی:
"اب دیر ہو چکی ہے، حمزہ"

حمزہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ دروازہ خودبخود بند ہونے کا مطلب تھا کہ ہوا کا کوئی جھونکا نہیں، بلکہ کوئی اور چیز اسے روک رہی تھی۔ اس نے جلدی سے دروازے کی طرف لپک کر اسے کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ جیسے کسی ناقابلِ دید قوت کے قابو میں تھا۔ہلنے کا نام تک نہیں لے رہا تھا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟" اس نے گھبرا کر نورا کی طرف دیکھا۔
نورا کا چہرہ سپاٹ تھا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ آہستہ سے بولی، "ہم یہاں پھنس چکے ہیں، حمزہ۔"
"پھنس چکے؟ مطلب؟ تمہیں پہلے سے معلوم تھا، نا؟" حمزہ کی آواز بلند ہو گئی۔
نورا نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگی، جیسے کسی غیر مرئی طاقت کا دباؤ محسوس کر رہی ہو۔
اچانک، ایک زوردار آواز گونجی جیسے کوئی چیز لکڑی کے فرش پر گرتے ہی ٹوٹ گئی ہو۔ حمزہ نے جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا، مگر کچھ نظر نہ آیا۔ اس کے حلق میں خشکی محسوس ہونے لگی۔

"یہاں کوئی ہے؟" اس نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
چند لمحے مکمل خاموشی میں گزرے، پھر کہیں دور، ایک سرگوشی گونجی:
"تم نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی... اب تمہیں قیمت چکانی ہوگی..."
حمزہ کا خون جیسے رگوں میں جم گیا۔ وہ پسینے میں بھیگ چکا تھا۔ "یہ سب کیا ہو رہا ہے، نورا؟ کیا تم جانتی ہو کہ یہ کون ہے؟"
نورا نے آہستہ سے سر جھکا لیا۔ "میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کیا تھا، حمزہ۔ یہ جگہ عام نہیں ہے۔ یہاں کچھ ایسا ہے، جو ہمیں جانے نہیں دے گا۔"
حمزہ نے خود کو سنبھالا۔ "ہمیں باہر نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔"
نورا نے مدھم آواز میں کہا، "ایک ہی راستہ ہے... مگر تمہیں ہمت کرنی ہوگی۔"
"کون سا راستہ؟" حمزہ نے بےچینی سے پوچھا۔
نورا نے آہستہ سے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا۔ حمزہ نے نظریں گھمائیں—وہاں ایک پرانا، بوسیدہ دروازہ تھا، جو نیم وا کھڑا تھا۔ دروازے کے پیچھے مکمل اندھیرا تھا، اور وہاں سے ہلکی ہلکی سرد ہوا آ رہی تھی۔
"اس کے پیچھے کیا ہے؟" حمزہ نے پوچھا۔
نورا نے دھیرے سے جواب دیا، "وہ راستہ جہاں سے صرف بہادر ہی گزر سکتے ہیں..."
حمزہ نے سختی سے لب بھینچ لیے۔ "میں یہ سب نہیں مانتا۔ میں جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔"
وہ آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھا۔ جیسے جیسے وہ قریب پہنچا، اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑنے لگی۔ دروازے کے پیچھے کی تاریکی اتنی گہری تھی جیسے وہاں روشنی کبھی پہنچی ہی نہ ہو۔
حمزہ نے گہری سانس لی اور دروازہ کھولا

اور جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، دروازہ زوردار آواز کے ساتھ پیچھے بند ہو گیا!
دروازہ دھماکے سے بند ہوتے ہی حمزہ نے گھبرا کر پیچھے مڑنے کی کوشش کی، مگر اندھیرے نے جیسے اس کے گرد دیواریں کھینچ دی تھیں۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی گہرے کنویں میں آ گرا ہے جہاں روشنی کا کوئی وجود نہیں۔
"نورا!" اس نے چیخ کر پکارا، مگر اس کی آواز گم ہو گئی۔
اچانک، اس کے پیچھے سرسراہٹ سی ہوئی۔ وہ جھٹکے سے مڑا، مگر وہاں کچھ بھی نظر نہ آیا۔ صرف گھپ اندھیرا اور ہلکی ہلکی سرگوشیاں۔
"ہم دیکھ رہے ہیں..."
یہ سرگوشی جیسے دیواروں سے آ رہی تھی، یا شاید کسی ان دیکھی مخلوق کے منہ سے۔ حمزہ نے خود کو سنبھالا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔
اچانک، اس کے قدموں کے نیچے زمین کھسکنے لگی۔ وہ گرتے گرتے سنبھلا، مگر جیسے ہی اس نے ایک قدم آگے رکھا، کوئی چیز اس کی ٹانگ سے لپٹی
ٹھنڈی، سخت، اور بھیگی ہوئی انگلیاں۔ حمزہ نے جھٹکے سے نیچے دیکھا، مگر اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ کچھ نظر نہ آیا۔ مگر وہ گرفت... وہ گرفت حقیقی تھی!
"کک... کون ہے؟" اس نے گھبرا کر پوچھا۔

"تم نے دروازہ کھولا، اب تمہیں رکنا ہوگا..." ایک بھاری سرگوشی سنائی دی، اور اچانک، اندھیرے میں دو چمکتی ہوئی آنکھیں ابھریں۔ وہ آنکھیں نارنجی رنگ کی تھیں، جیسے انگارے دہک رہے ہوں۔ حمزہ نے پسینے میں بھیگے ہاتھوں سے موبائل نکالا اور جلدی سے ٹارچ آن کی مگر جیسے ہی روشنی پھیلی، آنکھیں غائب ہو گئیں۔ سامنے صرف ایک پرانی، گرد آلود میز تھی، جس پر ایک مٹی سے بھری ہوئی کتاب رکھی تھی۔

حمزہ نے ہچکچاتے ہوئے کتاب اٹھائی۔ جلد پر کسی قدیم زبان میں کچھ لکھا تھا، مگر جیسے ہی اس نے صفحات پلٹنے شروع کیے، اندر کی تحریر اردو میں بدل گئی
"جو اس کتاب کو کھولے گا، وہ راہ دیکھے گا۔ مگر سوال یہ ہے... کیا وہ راہ واپس جانے کی ہوگی؟" حمزہ کے دل میں خوف سرایت کر گیا۔ اس نے گھبرا کر پیچھے ہٹنا چاہا، مگر اچانک کوئی چیز اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالنے لگی۔
ٹھنڈی، غیر انسانی انگلیاں۔ وہ تیزی سے مڑا اور سامنے جو کھڑا تھا، اس کی آنکھوں میں وہی دہکتے انگارے چمک رہے تھے۔

حمزہ کا دل جیسے سینے میں دھڑکنا بھول گیا۔ وہ چمکتی ہوئی آنکھیں، وہ غیر انسانی وجود، اور وہ برف جیسے سرد انگلیاں جو اس کے کندھے پر جمی ہوئی تھیں—یہ سب حقیقت تھی یا کوئی بھیانک خواب؟ اس نے ہمت کر کے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، مگر وہ چیز اس کے سامنے ہی کھڑی رہی۔ روشنی کمزور پڑ رہی تھی، جیسے اندھیرا روشنی کو نگل رہا ہو۔ "کک... کون ہو تم؟" حمزہ کی آواز لرز رہی تھی۔
وہ مخلوق خاموش کھڑی رہی۔ مگر اچانک، اس کے ہونٹ ہلنے لگے۔
"تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا، حمزہ..."

یہ آواز ایک ساتھ کئی سمتوں سے گونجی، جیسے دیواروں میں قید بےشمار مخلوقات ایک ساتھ بول رہی ہوں۔ حمزہ پیچھے ہٹتے ہوئے ٹھوکر کھا کر زمین پر گر گیا۔ اس کے ہاتھ سے کتاب بھی چھوٹ گئی، جو زمین پر گرتے ہی ایک زوردار آواز کے ساتھ کھل گئی اور ہوا میں ایک سرخ دھواں پھیلنے لگا۔ اچانک، نورا کی چیخ سنائی دی۔ "حمزہ! کتاب بند کرو!" حمزہ نے فوراً کتاب کو پکڑ کر بند کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے صفحات خود بخود پلٹنے لگے۔ ہر صفحے پر دھندلے الفاظ ابھر رہے تھے، جیسے کوئی نظر نہ آنے والا ہاتھ انہیں لکھ رہا ہو۔ "یہاں آنے والے کبھی واپس نہیں جا سکتے..." حمزہ نے پوری قوت لگا کر کتاب بند کر دی۔ لمحے بھر میں، وہ مخلوق چیخنے لگی، اور کمرے میں لرزش ہونے لگی، جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔
دروازہ ایک زوردار دھماکے سے کھل گیا، اور نورا اندر دوڑتی ہوئی آئی۔
"چلو! ابھی نکلنا ہوگا!"

حمزہ نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کی اور نورا کے ساتھ باہر کی طرف بھاگا۔ دروازے کے پار روشنی تھی، مگر جیسے ہی وہ قریب پہنچے، زمین ایک دم دھنسنے لگی حمزہ کے قدموں کے نیچے زمین جیسے ختم ہو رہی تھی۔ وہ نورا کے ساتھ بھاگ رہا تھا، مگر ہر قدم کے ساتھ اندھیرا مزید گہرا ہو رہا تھا۔ پیچھے سے وہ بھیانک سرگوشیاں اب بھی سنائی دے رہی تھیں "تم واپس نہیں جا سکتے..."
نورا نے حمزہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا۔ "ہمیں اس روشنی تک پہنچنا ہوگا!"
سامنے ایک ہلکی سنہری روشنی نظر آ رہی تھی، جیسے کوئی دروازہ کھلا ہو۔ حمزہ نے پوری قوت لگا کر بھاگنے کی کوشش کی، مگر جیسے ہی وہ روشنی کے قریب پہنچے، ایک زوردار دھماکہ ہوا اور ان کے سامنے زمین پھٹ گئی! حمزہ اور نورا گرنے ہی والے تھے کہ اچانک، روشنی میں سے ایک ہاتھ نمودار ہوا اور انہیں اندر کھینچ لیا۔

حمزہ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ وہ ایک پرانی، مٹی سے بھری ہوئی جگہ پر تھا۔ چاروں طرف درخت اور قدیم پتھر کے کھنڈرات نظر آ رہے تھے۔ "ہم کہاں ہیں؟" حمزہ نے سر پکڑ کر پوچھا۔ نورا گہری سانس لیتے ہوئے بولی، "یہی وہ جگہ ہے... جہاں سب شروع ہوا تھا۔" حمزہ نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ "کیا مطلب؟"
نورا کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی۔ "یہی وہ جگہ ہے جہاں میرے اور تمہارے مقدر کا فیصلہ ہونا تھا، حمزہ۔ تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب ایک حادثہ تھا؟"
حمزہ کی سانس رکنے لگی۔ "کیا کہہ رہی ہو، نورا؟" نورا آگے بڑھی اور زمین پر پڑی ایک قدیم مہر کو ہاتھ سے صاف کیا۔ اس مہر پر وہی نشانات تھے جو کتاب کے اندر تھے۔

"یہ مہر اُس دروازے کی کلید ہے، جسے تم نے کھولا تھا۔ مگر یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند نہیں ہوا، حمزہ... یہ تمہارے ساتھ بندھا ہوا ہے۔"
حمزہ کا سر چکرا گیا۔ "تم... تم کون ہو، نورا؟"
نورا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ "جو تم سمجھ رہے ہو، وہ سچ ہو سکتا ہے... یا شاید ایک دھوکہ۔ لیکن جو بھی ہو، اب تم واپس نہیں جا سکتے۔"
اور اسی لمحے، روشنی ایک بار پھر بجھنے لگی، اور وہی دہکتی آنکھیں اندھیرے میں نمودار ہونے لگیں

حمزہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔ نورا کی آنکھوں میں ایک عجیب روشنی تھی، جیسے وہ سب کچھ پہلے سے جانتی ہو۔ وہ دہکتی آنکھیں اب قریب آ رہی تھیں، اور زمین جیسے سانس لینے لگی تھی۔
"اب کیا ہوگا؟" حمزہ نے دبے لہجے میں پوچھا۔
نورا نے ایک گہری سانس لی اور آہستہ سے کہا، "یا تو ہم اسے ختم کر دیں گے... یا یہ ہمیں ختم کر دے گا۔"
حمزہ نے اردگرد دیکھا۔ پیچھے جانے کا راستہ ختم ہو چکا تھا، اور سامنے صرف اندھیرا تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا، اور پھر جیسے کسی ان دیکھے جذبے نے اس کا ہاتھ تھام لیا، وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔
"یہ دروازہ... تمہارے خون سے کھلا تھا، حمزہ۔ اسے بند کرنے کے لیے قربانی دینا ہوگی۔" نورا نے کہا۔
"کس کی قربانی؟" حمزہ نے چونک کر پوچھا۔
نورا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ "میرے علاوہ اور کون؟"
"نہیں، نورا! میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا!"
مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، نورا پہلے ہی مہر کے قریب جا چکی تھی۔ اس نے ایک آخری نظر حمزہ پر ڈالی اور آہستہ سے بولی، "یہ سب میرا مقدر تھا، حمزہ۔ تمہیں جینا ہے، کیونکہ تم وہ ہو جو آگے کی کہانی لکھے گا..."
پھر، ایک جھماکے کے ساتھ روشنی پھیل گئی۔ وہ دہکتی آنکھیں چیخنے لگیں، زمین لرزنے لگی، اور حمزہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے وقت رک گیا ہو