شمائلہ میری دوست بھی تھی اور پڑوسن بھی۔ صبح اس کا شوہر کام پر چلا جاتا تو دن بھر سکون رہتا، لیکن رات کو ان کے گھر سے آہ و بکا کی آوازیں آیا کرتیں۔ شوہر ہر روز رات کو خدا جانے کس بات پر خفا ہوتا۔ شمائلہ پر ہاتھ اُٹھاتا اور بہت مار پیٹ کرتا۔ تب میں سوچتی کہ عورت کی زندگی بھی کیا زندگی ہوتی ہے؟ دُکھ، درد، مجبوری اور تنہائی
شمائلہ کو میں اس کی شادی سے پہلے سے جانتی تھی۔ ہم نے آٹھویں سے میٹرک تک ساتھ پڑھا تھا۔ وہ میری ہم جماعت اور ایک بہت اچھی طالبہ رہی تھی۔ میں تو سوچا کرتی تھی کہ جس گھر جائے گی، اس گھر کو چار چاند لگا دے گی، مگر ہائے نصیب! ہر لڑکی کی اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے، اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس کی قسمت کیسی ہوگی۔ والدین نے اس کی شادی بہت دیکھ بھال کر کی تھی۔ شریف گھرانہ، نیک اطوار، لڑکا برسرِ روزگار۔ اور یہ کوئی غیر نہیں تھا، صباحت رشتے میں شمائلہ کا کزن تھا۔ دونوں کی دادی ایک ہی خاتون تھیں اور وہ ان دونوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔
جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دادی اور نانی سے بچپن میں شوق سے کہانیاں سنتے ہیں، شمائلہ اور صباحت بھی دادی سے کہانیاں سنا کرتے تھے۔ پہلے زمانے میں اکثر شہزادے، شہزادیاں، دیو، جن، بھوت یا مافوق الفطرت قسم کی جادوئی کہانیاں ہوا کرتی تھیں۔ صباحت کو بھی ایسی ہی کہانیاں پسند تھیں۔ وہ دادی سے فرمائش کرتا کہ وہ اسے جادوگر والی کہانی سنائیں۔ دادی اس کی فرمائش پوری کرتیں اور اپنی طرف سے من گھڑت کہانیاں بچوں کا دل خوش کرنے کو سنا دیا کرتیں۔
صباحت اکثر دادی سے کہتا کہ وہی جادوگر والی کہانی سنائیں جس میں وہ انسان کو منتر پڑھ کر اُلو بنا دیتا ہے۔ دادی کہتیں کہ ہاں بیٹا، یہ تو سچ بات ہے کہ اُلو ایک ایسا پرندہ ہے جس پر جادو ہوتا ہے۔ وہ جادوگر بھی ایسا ہی کرتا تھا۔ صباحت پوچھتا کہ دادی، اور بھی تو پرندے ہیں، صرف اُلو پر ہی کیوں جادو کرتے ہیں؟دادی جواب دیتیں کہ کیونکہ اُلو کو ایک منحوس پرندہ کہا جاتا ہے۔ یہ ویرانوں میں رہتا ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جہاں یہ گھر بناتا ہے، اس بستی میں بربادی آ جاتی ہے۔ پرانے وقتوں سے ایسی باتیں چلی آ رہی ہیں، بیٹے، لیکن ان باتوں میں حقیقت بھی ہو، یہ لازمی نہیں ہے۔ بس تم کہانی سنو اور ان باتوں کی کرید میں نہ پڑو۔
بچپن بیت گیا، لیکن صباحت کے دل سے اُلو پرندے کا خیال نہ گیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر اُلو کیسا پرندہ ہوتا ہے۔ اس نے کئی بار اپنے والد سے بھی کہا کہ بابا، مجھ کو اُلو پرندہ کہیں سے لا کر دیں۔ وہ بولے، ارے اُلو کہیں کے… تم اُلو پرندے کو لے کر کیا کرو گے صباحت بولا، میں اُس کو پالوں گا، بابا جان۔ والد نے سمجھایا، اُلو کوئی آسانی سے تھوڑا ہی ہاتھ آتے ہیں، یہ آبادیوں سے دُور ویرانوں میں رہتے ہیں۔ تم آبادیوں میں رہنے والے پرندے مثلاً طوطے، بٹیر، کبوتر وغیرہ پال لو، اگر اتنا ہی شوق ہے۔ ایسے منحوس پرندے کو کیوں پالنا چاہتے ہو، جو دن کو سوتا ہے، راتوں کو جاگتا ہے اور ویرانوں میں رہتا ہے؟ اس کو پکڑنے کے لیے تو ویرانوں کو کھنگالنا پڑے گا۔ صباحت نے پوچھا، بابا، کیا اُس کو جادوگر پالتے ہیں؟ہاں… سنا تو ہے۔ تمہاری دادی یہی کہتی تھیں۔ کیا ان کے گھر میں لانے سے ویرانی آتی ہے؟بھئی، یہ تو تمہاری دادی ہمیں کہانیوں میں بتایا کرتی تھیں، لیکن کہانیاں تو کہانیاں ہوتی ہیں، وہ حقیقت تھوڑا ہی ہوتی ہیں۔ تم کن باتوں کی کھوج میں پڑ گئے ہو!چچا جان نے بھی صباحت کو سمجھایا اور اُس کے دل سے اُلو پرندے کا خیال نکالنے کی کوشش کی، مگر دلچسپ کہانیوں کے اس عجیب کردار سے دلچسپی اُس کے دل سے نہ گئی۔ایک دن اُس نے کسی درسی کتاب میں دیگر پرندوں کی تصویروں کے ساتھ اُلو کی تصویر بھی دیکھ لی۔ اُس کو اس پرندے کا چپٹا چہرہ اور گول گول آنکھیں بڑی عجیب لگیں۔
وقت گزرتا گیا۔ اس دوران اس نے بہت سے قسم کے پرندے دیکھ لیے۔ چڑیا گھر میں مور، بگلے، مرغِ زریں، فاختائیں، آسٹریلین طوطےغرض، کئی طرح کے انواع و اقسام کے پرندے اُس کی نظروں سے گزرے۔ لیکن اتفاق یہ کہ وہ چڑیا گھر میں فقط اُلو کو ہی نہ دیکھ سکا، کیونکہ ان دنوں اُلو کا پنجرہ خالی تھا۔ شاید وہ بیچارہ کسی وجہ سے راہیٔ ملکِ عدم ہو چکا تھا۔ اُلو کو دیکھنے کی حسرت اُس کے دل ہی میں رہ گئی۔ایک شام، جب وہ فٹبال کھیل کر گھر آیا، اس کی ماں نے انکشاف کیا کہ آج ایک اُلو اچانک ان کو گھر میں آکے ایک پیڑ کی شاخ پر بیٹھا نظر آیا تھا۔ انہوں نے لکڑی سے ڈرا کر اُس کو اُڑا دیا۔ بولیں، توبہ توبہ، خدا جانے یہ منحوس کہاں سے آ مرا تھا؟ اُلو کا اس طرح گھر کے درخت کی شاخ پر آ بیٹھنا کچھ اچھا شگون تو نہیں ہے۔ یہ ایسی باتیں تھیں جو بچپن سے صباحت کے ذہن میں فیڈ ہوتی رہی تھیں۔ بعض بچے حساس ہوتے ہیں اور بعض بڑوں سے سُنی ایسی باتوں کو اعتقاد بنا لیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ صباحت کے ساتھ ہو گیا کہ بچپن میں دادی کی زبان سے سُنے اُلو کے قصے وہ کبھی نہ بھلا سکا۔
شمائلہ کی شادی صباحت سے ہو گئی۔ اس وقت تک وہ بھلا چنگا اور نارمل انسان تھا۔ یہ شادی بھی اس کی پسند سے ہوئی تھی۔ شمائلہ اور صباحت کے گھر پاس پاس تھے، تبھی وہ اپنی اس تایا زاد سے شادی کا خواہاں ہوا کیونکہ اسے شمائلہ کی عادات پسند تھیں۔
گھر کا رشتہ تھا، زیادہ اہتمام و انصرام نہ ہوا۔ سادگی سے شادی ہوئی، جہیز وغیرہ کا بھی سسرال والوں نے مطالبہ نہیں کیا کیونکہ وہ اپنے ہی گھر کی بچی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد صباحت کا تبادلہ ہو گیا اور اس نے دفتر سے قریب اور گھر والوں سے علیحدہ مکان کرائے پر لے لیا۔ یہ مکان نسبتا آبادی سے ذرا دور تھا۔ ابو نے یہاں پلاٹ خریدا تھا اور جب گھر بن گیا تو ہم نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ ہمارا یہ نیا مکان شمائلہ کے برابر والا تھا۔ مجھ کو خوشی ہوئی کہ شمائلہ ، میری دوست، یہاں بھی ہمارے پڑوسن میں آگئی تھی۔ میری تو شروع دن سے اس کے ساتھ بنتی تھی، پھر مجھے کیوں نہ خوشی ہوتی۔
جیسا کہ بتا چکی ہوں، کچھ دن تو سکون رہا، پھر ان کے گھر سے آہ و بکا کی آوازیں آنے لگیں۔ ان دنوں شمائلہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ معقول آمدنی کے باوجود ان کے گھر میں بے سکونی کیوں ہو گئی تھی، یہ معاملہ میری سمجھ میں نہ آیا۔ شمائلہ کے والدین اس کے گھر نہ آتے تھے، سسرال بھی دور ہو گیا تھا، میاں بیوی اور دو بچے تھے، پھر کس بات کا جھگڑا ہوتا تھا؟ چاہتی تھی معلوم کروں، لیکن خود سے سوال نہ کیا کہ کسی روز میری دوست خود ہی مجھے بتا دے گی۔
بالآخر شمائلہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ایک روز اس نے مجھے بتا ہی دیا کہ اس کے شوہر کو عجب طرح کا وہم ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا جھگڑا ہوتا ہے۔کس قسم کا وہم؟ میں نے سوال کیا۔طرح طرح کے وہم ہوتے ہیں، کیا کیا بتاؤں؟ مثلاً کچھ دن پہلے وہ دفتر میں بیٹھے تھے، کام کی زیادتی کے سبب شام ہو گئی۔ یہ کمرے سے اُٹھ کر واش روم گئے، واپس لوٹے تو دیکھا کہ کھڑکی سے ایک پرندہ اڑتا ہوا اندر آ گیا ہے اور ان کی ورکنگ ٹیبل کے عین بیچوں بیچ بیٹھ گیا ہے۔ جب انہوں نے غور سے اُسے دیکھا تو حیران رہ گئے کیونکہ اس پرندے کی صورت ہو بہو، اس تصویر سے ملتی تھی جس کے نیچے اُس کا نام ‘الو’ لکھا ہوا تھا۔
وہ ابھی تک حیران کھڑے پرندے کو تک رہے تھے کہ کمرے میں ان کا چپراسی داخل ہوا اور بولا: اچھا تو یہ آپ کے کمرے میں گھس آیا ہے؟ نکال لیجئے اس منحوس کو۔ یہ اُلو ہے، جہاں بیٹھ جائے، بربادی لاتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ چھڑی لینے چلا گیا اور کہنے لگا، صاحب، آپ کمرے سے باہر آجائیں، میں اس کو چھڑی سے باہر کرتا ہوں، کہیں یہ آپ پر حملہ ہی نہ کر دے۔
پیروں کا یہ کہنا تھا کہ صباحت کے ذہن میں خوف کے وہ دریچے کھل گئے جو بچپن سے لاشعور میں بند تھے۔ اُسے غور سے دیکھنے پر اس جاندار سے دہشت سی محسوس ہوئی۔ یہ خاصا بڑا تھا۔ سفید پروں پر بیضوی اسپاٹ بنے تھے، آنکھیں بڑی بڑی گول گول دائروں میں، مڑی ہوئی چونچ اور بھاری کرخت پنجے تھے۔ انہیں بچپن میں سنی دادی جان والی کہانیاں اور اُلو اور جادوگر کی کارستانیاں یاد آگئیں۔ وہ فوراً کمرے سے باہر نکل گئے۔
اتفاقاً اگلے دن بھی بالکل ایسا ہی ماجرا پیش آیا اور انہوں نے پیون کو بلوا کر اس پرندے کو نکلوایا، تاہم اس کی دہشت کہیں ان کے ذہن میں چھپ کر بیٹھ گئی۔ بھلا پرندے سے بھی کوئی بات ڈرنے والی ہوتی ہے؟ اُلو ایک چھوٹا سا پرندہ، وہ شیر تو نہ تھا کہ صباحت ڈر جائے۔ تیسرے روز خود کو سمجھا کر آفس گئے کہ کہانیاں تو سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔ اُلو بھی اور پرندوں کی طرح اللہ کی مخلوق ہے۔ یہ بچارا بھلا کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ لیکن قصہ یہ تھا کہ ایک اُلو کے جوڑے نے آفس میں کہیں گھونسلا بنالیا تھا۔ یہ گھونسلا کھڑکی کے اوپر بنے شیڈ کے اندر ایک کھوہ نما سوراخ میں تھا۔ شام کو اُلو صاحب جو نہیں اپنی کھوہ سے نکلتے، مالی کے لڑکے کی نظر پڑ جاتی۔ وہ اس کو کنکر وغیرہ دے مارتا اور یہ گھونسلے سے نکلتے ہی کمرے کی کھڑکی میں سے اندر آ جاتا۔
اس قصے سے چونکہ صباحت واقف نہ تھے، وہ اُلو کے وہم میں مبتلا ہو گئے۔ بیوی سے کہا، آج تیسرے روز بھی یہ واقعہ ہوا ہے۔ سمجھ لو کہ یہ بے وجہ نہیں ہے۔ اب بربادی نے میرے دفتر اور گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے اور یہ اُلو بر بادی کا مخبر بن کر آتا ہے۔ میں نوکری چھوڑ رہا ہوں۔ دوسری نوکری کہاں سے ملے گی؟ نوکری کا ملنا اتنا آسان تو نہیں ہے۔ دو بچوں کا ساتھ ہے اور تیسرے کی آمد ہے۔ خدارا ایسی غلطی مت کرنا۔ اُلو سے ڈرنے والی کوئی بات ہے بھلا؟ اتنے لمبے چوڑے مرد ہو کر ایک ذرا سے پرندے سے ڈر گئے ہو؟بیوی کی یہ باتیں شوہر کو انتہائی ناگوار گزریں۔ کہا کہ تمہیں میری جان کی پروا نہیں۔ یہ اُلو بر بادی کا سندیسہ لاتا ہے۔ دیکھ لینا اگر میں نے وہ دفتر نہ چھوڑا، میں ہی نہیں، ہم سب برباد ہو جائیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اُلو نہیں ہے، کوئی بد روح ہے جس پر جادو کیا گیا ہے اور یہ مجھے ستانے کو آجاتی ہے۔بیوی کے پاس ایسی باتوں کا کیا جواب تھا؟ وہ بچاری تو یوں سمجھانے میں لگی تھی کہ اگر میاں صاحب کی نوکری چھوٹ گئی تو کھائیں گے کہاں سے اور چھوٹے بچوں کا گزارہ کیسے ہوگا؟ اسی سمجھانے کی وجہ سے صباحت چڑھ کر بیوی پر ہاتھ اُٹھانے لگے کہ شمائلہ ان کو دفتر جانے پر مجبور کرتی تھی اور وہ اُلو کی پرچھائی سے بچنا چاہتے تھے تاکہ بربادی سے بچا جا سکے۔
دونوں کے ذہن میل نہ کھا رہے تھے۔ صباحت نے نوکری چھوڑ دی اور کئی جگہ درخواستیں دے دیں، بھاگ دوڑ کرتے رہے مگر ایسی نوکری نہ ملی جس کو معقول کہا جا سکتا اور اتنی تنخواہ بھی ملتی کہ گھر کا عزت سے گزارہ چل پاتا۔ جب میاں بے روز گار ہو گئے اور گھر میں راشن پانی کے لالے پڑ گئے تو ٹینشن اور بڑھی اور شمائلہ کی آہ و بکا کی آوازیں آنے لگیں۔ صباحت اُس کو زدو کوب کرتا۔ بچے باپ سے ڈرنے اور اس کی شفقت کو ترسنے لگے۔ صبر کا دامن شمائلہ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس نے والدین کو جاکر بتایا کہ نوبت فاقوں تک آ گئی ہے۔ اس کے والد اپنے بھائی یعنی صباحت کے والد پاس گئے کہ بچوں کا خرچہ اٹھا لو یا بیٹے کو سمجھائو، یہ کیا تماشا ہے۔
دونوں گھرانوں میں بدمزگی اور کھنچائو پیدا ہو گیا۔ مکان کا کرایہ بھی دینا ہوتا تھا۔ صباحت کے والد کرایہ دیتے تو بچوں کا خرچہ شمائلہ کے ماں باپ دیتے۔ محلے والے بھی جھگڑا سنتے تھے لیکن ان کے گھریلو معاملات میں دخل دینے سے گھبراتے تھے۔ شمائلہ بھوک اور پیاس کی آگ میں سلگتی رہی اور صباحت کو کوئی ملازمت پسند نہ آئی۔ شاید ان کے ابھی اور امتحان باقی تھے۔ اس عرصے میں شمائلہ نے ایک اور بیٹے کو جنم دیا۔ ایک ہفتہ ماں آکر رہی اور ایک ہفتہ ساس۔ وہ دونوں اپنے گھر کے بکھیڑوں میں تھیں۔ زیادہ دن نہیں رہ سکتی تھیں۔
حالات کے دبائو کے سبب صباحت اپناذ ہنی توازن کھو بیٹھا۔ بڑا بھائی جس نے والدین کو تو ساتھ رکھا ہوا تھا۔ وہ صباحت اور اس کے بچوں کو اپنے گھر رکھنے پر آمادہ نہ تھا۔ شمائلہ کے والد ، داماد کو علاج کے لئے اسپتال لے گئے۔ پتا چلا کہ کچھ دنوں سے زندگی کے خلفشار سے پریشان ہو کر وہ نشہ کرنے لگا ہے۔ علاج ہونے لگا۔ مرض چھپ گیا یعنی گھر آنے کے بعد کچھ دن طبیعت بہتر رہی لیکن مرض دوبارہ عود کر آیا۔ آخر کار لاہور لے گئے اور پاگل خانے میں داخل کرادیا گیا۔ وفاشعار بیوی نے سب کچھ بھلا کر شوہر کی خدمت کی۔ خدا تعالیٰ سے دُعا کرتی تھی کہ وہ اس کے بیمار شوہر کو صحت دیدے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی کی کرم نوازی سے وہ ٹھیک ہو جائے۔ والد اور سسر دونوں با قاعدگی سے اُس کی خبر گیری کرتے رہے اور وہ قدرے ٹھیک ہو کر واپس آگیا لیکن ابھی تک اعصابی تنائو کا شکار تھا۔
ایک روز وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اس کی نظر میز پر رکھی ایک کتاب پر پڑی۔ پہلی غزل کا مصرعہ تھا۔ ” پھر چلے آتے ہیں یا رو زلزلہ آنے کے دن ….
یہ مصرعہ پڑھنا تھا کہ وہ دوڑ کر بیوی کے پاس آیا اور کہا۔ عنقریب زلزلہ آئے گا، لہذا آپ سب چار پائی کے نیچے گھس جائیں۔ بچے اور بیوی ڈر کی وجہ سے چار پائی کے نیچے گھس گئے۔ اب تو یہ مشق زلزلہ کے انتظار میں کافی دن تک جاری رہی۔ صباحت کا وہم بڑھتا گیا۔ اب اس نے رات کو بھی بچوں اور بیوی کو آرڈر دینا شروع کیا کہ ہم سب لوگ چار پائی کے نیچے سویا کریں گے۔
شمائلہ اور بچوں کی کیا مجال تھی کہ وہ انکار کریں۔ اسی طرح پورا ایک ماہ سب چار پائی کے نیچے سوتے رہے۔ جو بھی بچہ یا شمائلہ پانی پینے یا کسی اور وجہ سے چار پائی کے نیچے سے نکلتے تو ان کو سر میں چوٹیں لگتیں۔ کمر اور ٹانگیں دُکھ جاتیں۔ وہ اس پاگل کی حکم عدولی نہیں کر سکتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک نئے وہم نے صباحت کے دل میں کروٹ لی۔ اخبار میں ایک سرخی ملاوٹ کے نام سے پڑھی۔ وہ جا کر بازار سے پانچ کلو چنے لے آیا اور بیوی کو حکم دیا کہ بازار کی ہر شے میں ملاوٹ کی وجہ سے اب ہم صرف چنے کھایا کریں گے۔ اگر ملاوٹ والا کھانا کھایا تو مر جائیں گے ۔ دو ماہ تک متواتر چنے کھاتے کھاتے بچے بھی تنگ آگئے۔
ایک روز شمائلہ نے خاوند کی غیر موجودگی میں بچے کو تندور سے دال روٹی لانے کو بھیج دیا۔ وہاں اس کو صباحت نے دیکھ لیا۔ مار پیٹ کر رومال اور پیسے چھین لئے۔ اب وہ روزانہ جب دوست کی دکان پر جاتا جہاں اس کے بچپن کے دوست نے ترس کھا کر اس کو اپنی دکان پر ملازمت دے دی تھی۔ گھر کے باہر تالا لگا جاتا کہ کہیں اس کی بیوی بازار سے کھانا نہ منگوالے۔ شمائلہ کے صبر کی حد ہو چکی تھی۔ وہ دن میں روز ایک بار مجھ کو اپنی داستانِ غم سناتی۔ دیوار کے ساتھ چار پائی لگا کر اس پر کھڑی ہو جاتی اور مجھ سے باتیں کرتی کیونکہ گھر کے بیرونی دروازے پر تو قفل پڑا ہوتا تھا۔ وہ مجھ سے التجا کرتی کہ سعد یہ تم ہی کسی طور مجھ کو اس قید سے نجات دلوا دو۔ اگر تم نے میرے گھر سے باہر نکلنے کی کوئی راہ نہ نکالی تو میں خود کشی کرلوں گی اور بچوں کو بھی اس جہان سے دوسرے جہان اپنے ساتھ لے جائوں گی۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے میں نے اس کا کہا نہ مانا اور نہ چابی بنانے والے کو لے کر آئی کہ وہ دوسری چابی بنا دیتا۔
جس روز اس نے آخری بار بہت التجا کی تھی، اس رات تو میں تمام شب نہ سو سکی تھی۔ تمام رات میری کشمکش میں گزر گئی۔ صبح تک میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اس کے بچوں کو ضرور آزاد کرائوں گی مگر قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔
اسی رات صباحت اپنے باپ کے گھر چلا گیا۔ خدا جانے کس وقت نصف شب کو شمائلہ نے خواب آور گولیاں کھالیں اور بچوں کو سوتا چھوڑ کر وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔ صبح ہوئی تو اس کا سسر اپنے بیٹے کے ساتھ گھر آیا تا کہ وہ بہو اور پوتوں کو اپنے گھر لے جائے۔ اس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اب اس کے بیٹے کے ساتھ بہو اور بچوں کو مزید نہ رکھنا چاہیے ور نہ کسی روز کوئی بڑا سانحہ جنم لے سکتا ہے کیونکہ رات بھر باپ سے صباحت نے باتیں کی تھیں۔
جس سے ان کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ صباحت کا وہم خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ افسوس کے شمائلہ کے سسر کو خیال تو آیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ واقعی ایسے وہی ذہنی مریض کے ساتھ اُس کے بیوی بچوں کو اکیلے نہ رہنا چاہیے مگر معاشرے میں ارد گرد کے لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اس معاملے کو اہمیت نہیں دیتے۔
دروازے کا تالا کھولا گیا۔ بچے پریشان بیٹھے تھے کہ ان کی ماں اُٹھ نہ رہی تھی اور چھوٹا بچہ رو رو کر ہلکان تھا۔ انہوں نے شمائلہ کو پکارا، ہلا یا جلایا تو پتا چلا کہ وہ تو اس دارِ فانی سے کوچ کر چکی ہے۔ گھر میں ہی نہیں، محلے بھر میں کہرام مچ گیا۔ اس کے گھر والے تو غم سے نڈھال تھے ہی مگر میرے دل پر بھی جیسے کوئی بہت بڑا بھاری پتھر آپڑا تھا۔ افسوس کا یہ بوجھ مجھ سے برداشت نہ ہو رہا تھا کہ اس کے مکان کے پہلو میں رہتے ہوئے اس کی آہ و بکا سنتے ہوئے بھی میں اس کے لئے کچھ نہ کر سکی تھی۔ اے کاش ! اس روز میں چابی بنانے والے کو لے ہی آتی اور اس کے بیرونی دروازے کے قفل کو کھول کر اسے آزاد کرا دیتی تو شاید وہ خود کشی نہ کرتی، شاید اس کی زندگی بچ جاتی۔ مجھے لگا کہ میں بھی اس کے مرنے کے جرم میں برابر کی شریک ہوں۔ واقعی ہم ساتھ رہنے والے بھی بعض اوقات کس قدر بے بس ہو جاتے ہیں کہ مرنے والا مرنے سے پہلے فریاد کرتا رہ جاتا ہے کہ کچھ کرو، ان اذیت ناک دِنوں سے نکالو ، مجھے بچالو مگر ہم اندھے، بہرے اور گونگے ہی بنے رہ جاتے ہیں۔
(ختم شد)