Sublimegate Urdu Stories

 وہ ہماری ٹیچر تھیں۔ بہت شفیق اور مہربان خاتون تھیں۔ بچپن میں ہم ان کے پاس پڑھنے جایا کرتے تھے۔ وہ ہمیں انگریزی اور حساب کی ٹیوشن پڑھاتی تھیں۔ ان دنوں ان کے حالات اچھے نہیں تھے۔ مالی پریشانیوں نے اُن کو گھیر رکھا تھا۔ جن حالات میں اس خاتون نے اپنی تعلیم مکمل کی، وہ صرف امی جانتی تھیں۔ گھر ذاتی ہو تو آدھی مشکلات دور ہو جاتی ہیں، مگر فائزہ خالہ کا مسئلہ یہ تھا کہ اکیلی کیسے رہیں؟ تب ماموں اور ممانی نے ساتھ دیا اور اپنا گھر چھوڑ کر فائزہ کے پاس آ کر رہنے لگے۔ اپنوں کا اتنا بھی سہارا بہت ہوتا ہے۔ فائزہ نہ صرف ان کی مشکور تھیں بلکہ ان کے پیر چھوتی تھیں۔ اپنا ہمدرد سمجھ کر ان پر اعتبار کرتی تھیں، تاہم وہ بہت خود دار تھیں۔ 

والدین کی وفات کے بعد کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھیں۔ اسی لیے اپنی والدہ کی واقف خواتین سے رابطہ کیا، اور انہی میں سے ایک منہ بولی خالہ کے توسط سے اسکول میں ملازمت ڈھونڈ لی، اور بطور ٹیچر کام کرنے لگیں۔ اپنی کمائی بھی ماموں اور ممانی کے ہاتھ پر لا کر رکھتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ یہ آپ کا حق ہے، میں آپ کی بیٹی ہوں، میری تنخواہ سے جتنا جیب خرچ مناسب سمجھیں، مجھے دے دیں، باقی آپ رکھ لیں۔

وقت گزرتا رہا۔ فائزہ کو ہمارے محلے میں کوئی تکلیف نہ ہوئی، کیونکہ ہم سب ان کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے۔ کبھی کبھار امی ان سے ملنے جاتیں تو وہ اپنی ماں کو یاد کر کے دو آنسو بہا لیتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماموں اور ممانی کے پاس انہیں کوئی تکلیف نہیں ہے، وہ ان کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ مگر جب میں پڑھانے جاتی ہوں تو راستے میں کبھی کبھار مجھے کچھ میلی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے پریشان ہو جاتی ہوں۔ امی ڈھارس دیتیں کہ بیٹی، اب تم کو عورت نہیں، مرد بن کر حالات کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ اس دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، یہاں تو سارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔ 

جب فائزہ اٹھائیس برس کی ہو گئیں، تو محلے کی کچھ بیبیوں نے ممانی کو احساس دلایا کہ لڑکی کی عمر نکل جائے گی، تب شادی کرو گی؟ آخر تم فائزہ کی شادی کی فکر کیوں نہیں کرتی ہو۔ ممانی کہتیں کہ میں کہیں زیادہ آتی جاتی نہیں، اور محلے والوں کو جب پتا ہے کہ فائزہ کا رشتہ کرنا ہے تو وہ مدد کیوں نہیں کرتے؟ کوئی اچھا رشتہ ملے گا تو ہم ضرور اس کی شادی کر دیں گے۔ سبھی لڑکے بظاہر اچھے لگتے ہیں، لیکن قسمت کی بات الگ ہے۔ ماں باپ قسمت نہیں دیکھ سکتے۔ یہ تو شادی کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ لڑکی کو جس شخص کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، وہ اصل میں کیسا ہے اور کس کردار کا حامل ہے۔

فائزہ خالہ نے ایک بچے کے باپ قاسم کا رشتہ اس لیے قبول کر لیا کہ ان کے والدین دنیا میں نہیں تھے اور ان کے سامنے کوئی مستقبل بھی نظر نہیں آتا تھا۔ جب شادی ہو گئی تو بظاہر وہ ایک خوشحال زندگی گزارنے لگیں کیونکہ قاسم ایک امیر آدمی تھے اور ان کے گھر میں ہر سہولت موجود تھی۔ کسی چیز کی کمی نہ تھی، تاہم شوہر کاروباری مزاج کا آدمی تھا۔ زیادہ تر وقت گھر سے باہر اپنے بزنس میں مصروف رہتا اور بیوی کو توجہ یا محبت نہیں دے پاتا تھا۔ اس کے نزدیک شاید بیوی یا زندگی کی ساتھی کی حیثیت صرف ایک ایسی عورت کی تھی جو گھر سنبھال سکے اور اس کے بیٹے کی مناسب دیکھ بھال کرے۔

 فائزہ بچوں سے محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ وہ قاسم کے بیٹے شاہ عالم سے بہت پیار کرتی تھیں، مگر وہ لڑکا کسی صورت سوتیلی ماں کو ماں کا درجہ دینے پر آمادہ نہ تھا۔ وہ انہیں صرف سوتیلی ماں ہی سمجھتا تھا اور باپ سے ان کی جھوٹی شکایات کرتا تھا، حالانکہ فائزہ خالہ اس سے کوئی برا سلوک نہیں کرتی تھیں۔ مگر قاسم ہر بار بیوی کو ہی قصوروار سمجھتے اور انہیں جھوٹا قرار دیتے۔

دو سال گزر گئے۔ فائزہ خالہ، شاہ عالم کے سلوک سے دلبرداشتہ رہنے لگیں۔ ان کے ہاں اپنی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، لیکن قاسم کو اس بات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ اپنی ساری پدرانہ شفقت شاہ عالم پر نچھاور کرتے اور بیوی کے احساسات کو نظر انداز کرتے۔ جب فائزہ کہتیں کہ وہ کسی لیڈی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتی ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ ماں کیوں نہیں بن سکتیں، تو قاسم ان پر برس پڑتے اور جتلاتے کہ تم شاہ عالم کو اپنی اولاد نہیں سمجھتیں، اسی لیے تمہیں اپنی اولاد کی خواہش ہو رہی ہے۔ وہ کہتے کہ جب اللہ چاہے گا تو اولاد ہو جائے گی، ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ 

غرض، اولاد کی چاہت میں انہوں نے کبھی بیوی کا ساتھ نہ دیا۔ قاسم صاحب بے حس شخصیت کے مالک تھے۔ ایک دن فائزہ نے کہا کہ شادی کے بعد سے آج تک آپ نے کبھی مجھے سیر کرانے نہیں لے گئے، میرا دل چاہتا ہے کہ ہم سب کہیں گھومنے چلیں۔ قاسم نے سرد لہجے میں کہا کہ میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں کہ تمہیں سیریں کرواتا پھروں، اب تمہاری عمر بھی سیر و تفریح کی نہیں ہے، یہ چونچلے تمہیں زیب نہیں دیتے، تم بیوی ہو اور گھر میں بیوی بن کر رہو۔ شوہر کی اس بات پر فائزہ سہم کر خاموش ہو گئیں۔
قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ تھوڑی ہی دیر بعد شاہ عالم گھر آیا اور بولا: ابو، چھٹیاں ہیں اور میرے کئی دوست مری جا رہے ہیں، آپ بھی مجھے وہاں لے چلیں۔ تب قاسم نے فائزہ سے کہا کہ اگر تم بھی ہمارے ساتھ جانا چاہتی ہو تو چلو، ہم مری جا رہے ہیں۔ فائزہ حیران رہ گئیں کہ ابھی تو وہ اس بات پر ناراض ہو رہے تھے اور اب فوراً تیاری کر لی ہے۔ مگر انہوں نے خاموشی سے اپنا بیگ تیار کر لیا تاکہ شوہر یہ نہ کہہ سکیں کہ تم میرے بیٹے کی خوشی سے جل گئی ہو۔ وہ لوگ دس دن مری میں رہے۔ باپ بیٹا سیر کو نکل جاتے اور فائزہ ہوٹل کے کمرے میں اکیلی بیٹھی رہتیں۔ ان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ دس دن بعد شاہ عالم نے کہا کہ ابو، اب ہمیں واپس جانا چاہیے۔ 

اس دن موسم بہت خراب تھا، بارش ہو رہی تھی۔ فائزہ نے نرمی سے کہا کہ موسم سازگار نہیں، بہتر ہو گا کل چلیں، مگر شاہ عالم ضدی تھا۔ وہ کہنے لگا کہ کل مجھے دوست سے ملنا ہے، ہم آج ہی روانہ ہوں گے۔ قاسم اپنے بیٹے کی ہر بات کو حکم کا درجہ دیتے تھے۔ وہ شاہ عالم سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اگر وہ کہتا کھائی میں چھلانگ لگا دو، تو شاید لگا بھی دیتے۔کافی راستہ طے کرنے کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پھسلن کی وجہ سے ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔ قاسم اور شاہ عالم موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جبکہ فائزہ خالہ بدقسمتی سے زندہ بچ گئیں۔

ابھی فائزہ خالہ عدت ہی میں تھیں کہ قاسم کے بھائیوں نے انہیں روانگی کا پروانہ دے دیا اور اپنے بھائی کی جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے عدت بھی پوری نہ کرنے دی اور فائزہ کو گاڑی میں بٹھا کر رخصت کر دیا۔ البتہ اتنی “مہربانی” ضرور کی کہ اپنا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ مگر فائزہ خالہ کو سامان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ انہوں نے صرف اپنے کپڑے اٹھائے اور باقی کچھ نہ لیا۔ جب وہ اپنے پرانے گھر پہنچیں تو معلوم ہوا کہ وہاں اب دوسرے لوگ رہتے ہیں۔ پتہ چلا کہ کچھ عرصہ قبل ان کے ماموں یہ گھر بیچ کر جا چکے ہیں، حالانکہ یہ گھر فائزہ کے نام تھا۔ مگر چونکہ وہ ان کے سرپرست تھے، اس لیے انہوں نے سرپرستی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر گھر بیچ دیا تھا۔ اس رات فائزہ خالہ کے پاس سر چھپانے کو چھت بھی نہ تھی۔
میرے ابو نے ان کو ایک ہفتے تک اپنے گھر میں پناہ دی۔ اس دوران خالہ ملازمت تلاش کرتی رہیں کیونکہ پہلے والی ملازمت تو ان کے شوہر نے شادی کے بعد چھڑوا دی تھی۔ خالہ بہت اچھے مضامین لکھتی تھیں اور ان کے مضامین شائع بھی ہوتے تھے۔ کئی اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان ان کو جانتے تھے، تبھی ایک اخبار میں انہیں نوکری مل گئی۔ اسی اخبار کے ایڈیٹر نے ان کے لیے ایک ویمن ہاسٹل میں رہائش کا بندوبست بھی کروا دیا۔ فائزہ خالہ کو زندگی میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان کا سامنا صرف ان ہی جیسی باحوصلہ خاتون کر سکتی تھیں۔ اگر کوئی دوسرا ہوتا تو شاید خودکشی جیسا حرام اور بزدلانہ قدم اٹھا لیتا۔ لیکن وہ جانتی تھیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا کفر کے مترادف ہے، اس لیے ہر مشکل وقت میں وہ صبر اور استقامت کے ساتھ کھڑی رہیں۔

تین سال تک وہ اخبار میں کام کرتی رہیں۔ پھر اچانک ان کی زندگی میں ایک ایسا شخص آیا جس نے ان کی زندگی میں خوشیوں کے دروازے کھول دیے۔ اس شخص کا نام الیاس تھا، جو ان کے مضامین بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ الیاس کوئی عام شخص نہیں تھا، بلکہ ایک مشہور اور بے باک کالم نگار تھا۔ وہ ہمیشہ سچ لکھتا تھا اور کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔ بڑے بڑے بااثر لوگ اس کے قلم کی طاقت سے خائف رہتے تھے۔ ایک دن وہ اخبار کے دفتر آیا، جہاں فائزہ سے ملاقات ہوئی۔ تعارف کے دوران اسے معلوم ہوا کہ یہی وہ “فائزہ” ہیں جن کے مضامین وہ شوق سے پڑھتا ہے۔ وہ ان سے بہت متاثر ہوا اور کچھ ہی دن بعد انہیں شادی کی پیشکش کر دی۔ فائزہ کو بھی مدت بعد اپنی پسند کا ایک مخلص انسان ملا۔ کچھ دن سوچ بچار کے بعد انہوں نے یہ رشتہ قبول کر لیا اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔

شادی کے بعد خالہ نے ملازمت چھوڑ دی اور نئی زندگی کا آغاز کیا۔ یہ زندگی بہت خوبصورت تھی کیونکہ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اور محبت تھی۔ جب میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام کریں، تو زندگی جنت بن جاتی ہے۔ فائزہ جانتی تھیں کہ الیاس ایک بے باک صحافی ہیں، جنہوں نے ہمیشہ سچ لکھا، حتیٰ کہ ان کے کالموں نے کئی خودغرض سیاستدانوں اور طاقتور طبقے کو بے نقاب کیا۔ انہی دنوں الیاس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ اس بار وہ جن لوگوں کے خلاف لکھ رہے تھے، وہ اوباش اور بے لگام تھے۔ وہ اپنے مفادات پر آنچ آنے پر کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔

جب فائزہ نے وہ رپورٹ دیکھی تو الیاس کو روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اتنا سچ نہ لکھیں جو تمہارے لیے زہر کا پیالہ بن جائے۔ یہ سچوں کا دور نہیں رہا۔ اگر کسی نے تم سے انتقام لینے کی ٹھان لی تو کوئی تمہیں بچانے نہیں آئے گا۔ مگر الیاس سچ بولنے کے نشے میں مست تھا۔ اس نے بیوی کی بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ ان دنوں فائزہ امید سے تھیں اور بہت خوش بھی، لیکن ساتھ ہی خوفزدہ بھی تھیں کہ کہیں کوئی ان کی خوشیوں کو چھین نہ لے۔پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ الیاس صاحب اپنے بچے کی ولادت کی خوشی بھی نہ دیکھ سکے۔ ظالموں نے انہیں مہلت نہ دی۔ ایک دن جب وہ ایک دعوت سے واپس آ رہے تھے، ایک اندھی گولی نے ان کی جان لے لی اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
فائزہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی قسمت میں ایک اور زخم لکھا ہے، لیکن یہ زخم ایسا تھا جس نے فائزہ کی تمام خوشیوں کو خاک میں ملا دیا۔ وہ اب جینا نہیں چاہتی تھی، مگر پھر بھی اسے جینا پڑا کیونکہ وہ ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔ ایک ایسے بدقسمت بچے کی ماں، جس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ اب اس بچے کو ماں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت تھی۔ جن لوگوں نے الیاس کو گولی ماری تھی، ان کے رشتہ دار پولیس میں تھے اور وہ سب بہت بااثر لوگ تھے۔ انہوں نے جھوٹا الزام لگا کر فائزہ کو جیل بھجوا دیا، یوں وہ بچہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پیدا ہوا۔ ماں کے ساتھ بچے نے بھی کئی سال قید میں گزارے۔

جب فائزہ جیل سے رہا ہوئیں تو میں ان سے ملنے گئی۔ وہ بہت کمزور اور نڈھال دکھائی دیتی تھیں، مگر ان کے الفاظ میں اب بھی ہمت اور شعور تھا۔ انہوں نے کہا، ہمارا ملک ہمیں بہت پیارا ہے اور ہم اس کی عزت کے لیے جیتے ہیں، اسی کی سلامتی کی خواہش میں مرنے کی تمنا کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اپنے ہی وطن میں رہ کر اس وطن کو نقصان پہنچانے والے لوگ عورت کی عزت کیوں نہیں کرتے۔ شاید وہ خدا سے بھی نہیں ڈرتے، جس کی طاقت ہر طاقتور سے بڑی ہے۔ ہم سب کو ایک دن اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو نقصان پہنچا کر یا بدلہ لے کر ہم جیت گئے، لیکن اللہ کی نظر میں اور قسمت کی دہلیز پر اصل کامیاب کون ہے؟ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے، یہ تو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔