ہمارے گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ میں نے گریجویشن مکمل کر کے چند دن قریبی اسکول میں جاب کی، مگر گھر بیٹھنے کی اپنی راحت ہوتی ہے، اس لئے ملازمت چھوڑ دی۔ اُن دنوں ٹی وی بھی شام پانچ بجے سے شروع ہو تا تھا۔ اگر کوئی مشغلہ ایسے ہی نہ ہو، کوئی بات کرنے والا نہ ہو ، تو درو دیوار کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ایسے لمحات میں لڑکیاں باہر کی دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں اور غلطیاں کر بیٹھتی ہیں۔
میں دراصل لاڈوں پلی تھی۔ میری ساتھی لڑکیاں سب ہی ملازمت کر رہی تھیں، مگر میں تو ماں باپ کے ہاتھ کا چھالا تھی ، سارا دن کتابوں میں گھسی رہتی اور بھائی ، ان کی اپنی الگ دنیا تھی۔ ابو کا بزنس خوب جما ہو ا تھا، وہ تمام وقت اپنے کاروبار میں مصروف رہتے تھے اور امی کو کچن کے کاموں سے عشق تھا ایسے میں، میں کیا کرتی ؟ گھر میں فون تھا، بس اسی کو مشغلہ بنالیا۔ کبھی سہیلیوں کو فون کرتی اور کبھی ویسے ہی الٹے سیدھے رانگ نمبر گھما ڈالتی۔ ایک دن فون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسیور اُٹھا کر ہیلو کہا، تبھی وہ بولا۔ کیسی ہو؟ کیا حال چال ہے ؟ اس بے تکلفی پر میں برہم ہو گئی کیونکہ رانگ نمبر پر بھی میں صرف لڑکیوں سے بات کرتی تھی، کوئی لڑکا بولتا تو فون بند کر دیا کرتی۔
میری برہمی پر وہ بولا۔ آپ ناحق خفا ہورہی ہیں۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کے گھر فون کیا تھا اور آپ کی آواز میری بھتیجی جیسی ہے۔ میں سمجھا وہ بات کر رہی ہے۔ مجھے معاف کر دیجئے۔ اس نے کچھ اس طرح خجالت سے بات کی کہ میں شرمندہ ہو گئی۔ اچھا ! میں سمجھی کوئی ٹھر کی قسم کا لڑکا ہے۔ ٹھیک ہے ، ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں، میں فون بند کرتا ہوں اور آئندہ فون نہ کروں گا۔ اس کی اس طرح کہنے پر بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ ٹھہریئے فون بند مت کیجئے گا۔ کیوں ؟ کیا آپ نے میرا شجرہ نصب پوچھنا ہے ؟ یہی سمجھ لیں، برائے مہربانی یہ تو بتائیے کہ آپ کا نام کیا ہے اور آپ کیا کرتے ہیں ؟ میرا نام نبیل ہے اور میں ٹیلی فون کے محکمے میں ایک معمولی سا کلرک ہوں۔ ٹیلی فون کے محکمے میں ؟ پھر تو آپ کالیں ملا کر بھی دے سکتے ہیں۔ ہاں کیوں نہیں، کیا آپ کو کسی کو کال ملوانی ہے ؟ جی، میری سہیلی سیالکوٹ میں رہتی ہے، پہلے وہ میرے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی ، ان کے ابو کا تبادلہ ہو گیا تو وہ وہاں چلی گئی ہے۔ اُن دنوں دوسرے شہر کال بک کروانی پڑتی تھی، تبھی بہت دیر کے بعد کال ملتی تھی۔
اس نے نمبر مانگا، میں نے دے دیا۔ اس نے کہا۔ ارے یہ تو میرے ماموں کی بیٹی فوزیہ کا نمبر ہے۔ ماموں پہلے یہاں لاہور میں تھے، اب سیالکوٹ چلے گئے ہیں۔ اچھا! میں نے پر مسرت لہجے میں کہا۔ پھر تو بہت ٹھیک ہوا ہے۔ چلئے آپ سے تعلق نکل آیا۔ فوزیہ کالج میں میری بیسٹ فرینڈ ہوا کرتی تھی۔ اب اس سے بات کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔
یوں میری بات چیت نبیل سے شروع ہو گئی۔ جب مجھے فوزیہ سے بات کرنی ہوتی میں نبیل کو فون کرتی ، وہ کال ملا دیا کرتا تھا۔ وہ ایک سلجھا ہوا نوجوان تھا ، کبھی کوئی بیہودہ بات نہیں کی۔ اس کی باتیں متاثر کن ہو تیں اور میں مرعوب ہو جاتی۔ ایک دن میں نے سوچا کہ کیوں نہ امی ابو سے اس کا تعارف کرادوں۔ کہیں ایسانہ ہو، کسی وقت ان کو اس بات کا علم ہو جائے اور وہ خفا ہوں۔ امی کو اس کے بارے بتایا اور کہا کہ میں فوزی کے کزن کو گھر بلانا چاہتی ہوں، اگر آپ اجازت دیں تا کہ اس کو دیکھ سکوں اور آپ بھی دیکھ لیں کہ کیسا انسان ہے۔ امی نے اجازت دے دی اور میں نے اُسے چائے پر بلا لیا۔ امی کے ساتھ اس نے کچھ دیر باتیں کیں، پھر بھائی آگئے، انہوں نے کوئی خاص نوٹس نہ لیا، کیونکہ امی ساتھ بیٹھ کر باتیں کر رہی تھیں۔ میرا چھوٹا بھائی، دوسرے شہروں میں اپنے دوستوں کو فون کیا کرتا تھا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ نبیل سے دوستی کر لوں ؟ وہ شہر سے باہر کی کالیں تو ملوا دے گا اور دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑے گا، یوں ماجد کی دوستی نبیل سے ہو گئی۔
اب وہ ماجد سے ملنے ہمارے گھر آتا۔ گھر کے تمام افراد سے اس کی اچھی سلام دعا ہو گئی کیونکہ وہ ایک مہذب لڑکا تھا۔ اس کی عادات سبھی کو پسند تھیں۔ امی ابو بھی اس سے مل کر خوش ہوتے ، انہوں نے اس کو بیٹا بنالیا۔ کبھی کبھی ماجد اسے کھانے پر بھی بلا لیتا تھا۔ اب ہمیں دوسرے شہروں کی کالیں بک کرانے میں آسانی ہو گئی تھی۔ ایک دن پتا چلا کہ فوزیہ اپنی خالہ سے ملنے لاہور آئی ہوئی ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اتفاق سے دوسرے روز میری سالگرہ تھی، سو میں نے فوزیہ کو مدعو کر لیا، ادھر نبیل کو بھی بھائی نے بلا لیا تھا۔
جب پارٹی میں فوزیہ کی ملاقات نبیل سے ہوئی ، تو وہ اپنے پھو پھی زاد کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور بولی۔ زویا ! واقعی تمہارا انتخاب بہت اچھا ہے۔ میرا کزن نیک اور بہت شریف لڑکا ہے۔ نبیل نے مجھے کتابوں کا بہت اچھا تحفہ دیا تھا۔ اس کے تحفے کو سبھی نے سراہا۔ تقریب کے بعد وہ فوزیہ کے ساتھ چلا گیا۔ ایک سال اور گزر گیا۔ جس دن میری اس کے ساتھ فون پر بات نہ ہوتی، تب میرا دن بہت برا گزرتا تھا۔ لگتا تھا کہ میں اس کے بغیر ادھوری ہوں۔ رفتہ رفتہ بے کلی بڑھتی گئی۔ رات کو نیند نہ آتی اور دن کا چین بھی کھو جاتا۔ اب میں خود سے ڈرنے لگی۔ فون کی گھنٹی بجتی تو انتظار کی اذیت ختم ہو جاتی مگر دل نجانے خوف سے دھڑکنے لگتا۔ نبیل کا بھی حال میرے جیسا ہی تھا اور پھر وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔
دنیا کے سارے خدشے قدموں میں پامال کر کے ، سارے بندھن توڑ کر ہم ملنے لگے۔ میں کسی بہانے گھرسے جاتی، پھر ہم کسی پارک یا نزدیکی ریسٹورنٹ میں مل بیٹھتے۔ ایک دن میں نے امی سے کہا کہ سارہ کے گھر جارہی ہوں، اس کی سالگرہ ہے۔ جب پارٹی ختم ہو جائے گی، تو وہ مجھے گھر ڈراپ کر دے گی۔ امی ابو کو مجھ پر اعتماد تھا اور بھائی ان کی وجہ سے کچھ نہیں بولتے تھے، تبھی مجھ کو کسی نے نہ روکا۔ در اصل میں نبیل سے ایک پارک میں ملنے گئی تھی۔ وہاں رش نہ تھا، ہم بے فکری سے بنچ پر بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے۔ ہمیں خبر نہ تھی کہ آج کی ملاقات ہماری شامت کا موجب بنے گی۔ اتفاق کہ میرا بھائی اپنے دوستوں کے ہمراہ وہاں آگیا اور اس نے مجھے نبیل کے ساتھ دیکھ لیا۔
وہاں تو کچھ نہ کہا کہ دوست ساتھ تھا، مگر جلدی گھر جا کر امی سے پوچھا کہ زویا کہاں ہے ؟ وہ اپنی سہیلی کی سالگرہ میں گئی ہے۔ بھائی خاموش ہو گیا اور میری واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ جو نہی میں گھر آئی، امی نے بتایا کہ تمہارا بھائی انتظار کر رہا ہے۔ وہ جب سے آیا ہے، برآمدے میں ٹہل رہا ہے، تم کہاں تھیں؟ اتنے میں بھائی آگیا اور پوچھا۔ زویا سچ بتاؤ کہ تم کہاں گئی تھیں؟ بھائی میں سہیلی کی سالگرہ میں تھی۔ اس نے کہا۔ تو پارک میں نبیل کے ساتھ کیا تمہارا بھوت بیٹھا تھا؟ یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، اس کے بعد میں کچھ نہ بول سکی اور رونے لگی۔ امی مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں اور کہا۔ سچ بتاؤ، کیا بات ہے؟ میں تمہاری ماں ہوں، ہر حال میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ اگر تم نے مجھ سے کچھ نہ چھپایا اور سچ بات کہی تو بعد کے حالات کی تم خود ذمہ دار ہو گی۔ میں نے سوچا۔ ایک دن بتانا تو ہے، کیوں نہ ابھی بتا دوں۔ تب ان کو بتایا کہ میں نبیل سے محبت کرتی ہوں، آپ میری مدد کیجئے ۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔
امی حیرت سے میرا منہ تکنے لگیں اور بولیں ۔ تم ہوش میں تو ہو ؟ کیا تمہیں زندگی کا ساتھی چننے کو یہ مفلس ملا؟ جب کہ تمہاری منگنی ایک اعلیٰ خاندان میں ہو چکی ہے۔ کیا تم کو اپنے مستقبل اور ہماری عزت کا کچھ خیال نہیں ہے ؟ اگر تمہارے ابو کو پتا چل گیا تو وہ تمہارا اور نبیل کا کیا حال کریں گے۔ امی دیر تک مجھے سمجھاتی رہیں، مگر میری عقل کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ میں بس روئے جارہی تھی اور ان کی کوئی بات نہیں سمجھ پارہی تھی۔ جب وہ سو گئیں۔ میں نے نبیل کو فون کیا اور تمام احوال کہہ سنایا۔ وہ کہنے لگا اب جدائی ہم نہ سہ سکیں گے۔ میرا تو اپنی کزن سے نکاح بھی ہو چکا ہے ، مگر میں نے رشتہ تمہاری خاطر ٹھکرادیا ہے اور میرے گھر والوں کو یہ علم ہے کہ میں تم کو جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔ میں جب کسی صورت نہ مانی تو امی نے تنگ آکر ابو کو بتا دیا کہ تمہاری بیٹی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے۔ اور وہ بھی اس کلرک ہے۔ یہ سن کر والد آگ بگولہ ہو گئے ، تب امی نے سمجھایا کہ حوصلہ سے کام لو ، یہ بیٹی کا معاملہ ہے۔ ایسے غصہ مت کرو۔ اس طرح تو حالات اور خراب ہو جائیں گے۔ تم اسے پیارے سمجھاؤ۔
ابو نے مجھے بہت سمجھایا۔ بیٹی ! وہ لوگ نہ ہم زبان ہیں اور نہ ہماری ان کی تہذیب ملتی ہے۔ ہم نے جہاں تمہارا رشتہ کیا ہے وہاں تم زیادہ سکھی رہو گی۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر رشتہ کیا ہے۔ میں مگر کہاں پیار سے سمجھنے والی تھی۔
کہتے ہیں نا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ میں محبت کے کانٹوں بھرے راستے پر چلنا چاہتی تھی۔ ابو نے کہا۔ بیٹی! نبیل ایک غریب آدمی ہے۔ وہ تمہاری ضروریات پوری نہ کر سکے گا، لیکن مجھے تو رونے دھونے سے کام تھا اور ایک ہی جواب تھا کہ نبیل سے شادی کروں گی، ورنہ کبھی شادی ہی نہیں کروں گی۔ میری حالت دیکھ کر والدین کا دل بیٹھ گیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ تو نہیں سمجھے گی، اب نبیل ہی سے بات کرتے ہیں۔ میرے والدین نے نبیل کو فون کر کے گھر بلا لیا اور کہا۔ بیٹے ہم نے تم کو ہمیشہ عزت دی، تم پر اعتبار کیا ہے اور اپنا بیٹا سمجھا، صرف اس لئے کہ ہم تم کو ایک شریف لڑکا سمجھتے تھے، لیکن آپ نے ہماری سادگی کا غلط مطلب لیا۔ اب بھی وقت ہے ، قدم پیچھے ہٹالو اور ہمارے بھروسے کی لاج رکھتے ہوئے ہماری بیٹی کے اچھے مستقبل کے راستے سے ہٹ جاؤ۔ وہ گم صم بیٹھا تھا۔
جب انہوں نے دیکھا یہ تو پتھر کے بت کی طرح بیٹھا ہے اور کوئی بات سن اور سمجھ نہیں رہا، تو میری ماں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اور بولیں۔ تم کو خدا کا واسطہ ! ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تم ہماری بیٹی کے راستے سے ہٹ جاؤ، ورنہ ہم پر جانے کتنی تباہی آجائے گی۔ جس قدر روپیہ پیسے تم کو چاہیے لے لو، مگر ہماری عزت کا سوال ہے۔ زویا کی منگنی ہو چکی ہے۔ میرے والدین کی التجا نے نبیل کے دل پر اثر کیا اور اس نے کہا کہ میں اتنا خود عرض نہیں کہ اس عمر میں آپ لوگوں کو رلا کر آپ کی بیٹی سے شادی کروں۔ آپ نے واقعی مجھ پر بھروسہ کیا اور فی زمانہ یہ بڑی بات ہے۔ اگر آپ لوگ شریف ہیں تو میں بھی شریف خاندان سے ہوں۔ ابو نے کہا۔ بے شک بیٹے تم صحیح کہہ رہے ہو۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم نے زویا کارشتہ کر دیا ہے۔ اگر ایسانہ ہوا ہو تا ضرور ہم تمہارے رشتے پر غور کرتے۔ اگر تمہیں ہمارا داماد بننے کی چاہ ہے تو ہماری چھوٹی لڑکی فلزاسے شادی کر ا دیتے ہیں، کیونکہ ابھی اس کا کہیں رشتہ طے نہیں ہوا ہے
۔ میں فلزا کو اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھتا ہوں اور میں اتنا بے غیرت نہیں کہ آپ کی دوسری بیٹی سے رشتہ کروں، جس کو ایک بھائی کی نظر سے دیکھا ہے۔ مجھے آپ کا روپیے پیسے بھی نہیں چاہئے۔ مجھے بس آپ کی عزت کا خیال ہے۔ آپ زویا کی شادی کا بندو بست کریں، جہاں آپ چاہتے ہیں۔ میں اس کے رستے میں نہیں آؤں گا۔ جب وہ جارہاتھا، میرے والد نے اسے ایک لفافہ دیا کہ اسے گھر جا کر کھولنا۔ اس میں ایک لاکھ روپے کا چیک تھا اور اس وقت یہ بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔
جب اس نے گھر جا کر لفافہ کھولا، اُسے بہت دکھ ہوا، مگر اس نے غصہ ضبط کر لیا اور چیک رکھ لیا۔ اگلے دن مجھے فون کیا کہ میں تم سے شادی کرنے سے مجبور ہوں، کیونکہ میں اپنی منکوحہ کو نہیں چھوڑ سکتا، ورنہ میری بہن کا گھر اجڑ جائے گا۔ یہ وٹے سٹے کارشتہ ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں۔ ہم بہن کے بچوں کے لئے مقدمہ بازی بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی مفلسی میں عزت کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔ تم کو میں کوئی سکھ بھی نہیں دے سکتا۔ تم ہمیشہ سے امیرانہ ماحول میں پہلی بڑھی ہو۔ غربت کے دکھ نہیں جانتیں ۔ تم میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکو گی۔ اس سارے معاملے کا میرے چھوٹے بھائی ماجد کو کوئی علم نہیں تھا۔ اسے میرے گھر والوں نے کچھ نہ بتایا کیونکہ وہ نبیل کا دوست تھا۔
والدین نے میری شادی کی تاریخ رکھ دی تھی۔ مجھے بے وفا نبیل کی طرف سے تو جواب مل چکا تھا اب والدین کو بھی ناراض کر دیتی تو کدھر جاتی؟ تقدیر کا فیصلہ جان کر ماں باپ کی بات مان لی۔ شادی کے کارڈ چھپ گئے تو ماجد نے ایک کارڈ نبیل کو بھی دیا اور تاکید کی کہ میری بہن کی شادی میں ضرور آنا۔ وہ ماجد کے اصرار پر فوزیہ کے ساتھ میری شادی میں آیا اور مجھے اچھی کتابوں کا گفٹ اور ساتھ ایک لفافہ دیا اور مبارک باد کہہ کر چلا گیا۔ مجھے رونا آرہا تھا، مگر میں نے آنسو ضبط کئے اور لفافہ اپنی بہن کو دے دیا۔ شادی ہو گئی اور میں اپنے دولہا کے گھر آگئی۔ یہ سوچ کر سسرال کے آنگن میں قدم رکھا کہ اب میں اپنے شوہر کے گھر کو ہی اپنا گھر سمجھوں گی اور ان کی خدمت و اطاعت کروں گی، مگر جب میرے دولہا ایان کمرے میں آئے ، تو ان کا رویہ روکھا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا کہ براہ مہربانی اپنا گھونگٹ اٹھا کر خود مجھے چہرہ دکھا دو۔ ہماری قریبی رشتہ داری ہے، سو بار تم کو دیکھ چکا ہوں۔ اب یہ گھونگٹ ، گھونگھٹ کا ڈرامہ کیا کھیلنا ہے۔
مجھ کو یوں لگا، جیسے کسی نے مجھے پہاڑ کی چوٹی سے دھکا دے دیا ہو۔ میں بے اختیار رونے لگی، تو بولے۔ تم سے شادی کر کے برباد تو میری دنیا ہو گئی ، تمہارا کیا بگڑا ہے ؟ جو اس طرح رو رہی ہو۔ خدا کے لئے چپ ہو جاؤ، میں پہلے ہی بہت آپ سیٹ ہوں۔ آپ کی دنیا میں نے کیسے برباد کردی ؟ روتے روتے میں بول پڑی۔ تم نے نہیں ، میرے والدین نے زبردستی میری شادی تم سے کر کے مجھے برباد کیا، جب کہ میں انکار کرتا رہا، مگر تم ابا کے کزن کی بیٹی اور پھر برسوں پہلے ہوئی منگنی، ان کو تو اپنے کہے کی فکر پڑی تھی، میری کب ان کو فکر تھی۔
تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ قصور نہ تمہارا ہے اور نہ میرا۔ ہمارے بزرگوں کا سہی مگر میری خوشیوں کی دنیا تو کٹ گئی ہے۔ اب جبکہ میں تمہیں محبت دے نہیں سکتا اور جس سے محبت ہے ، وہ صدمے سے خود کشی کی کوشش میں اسپتال میں پڑی ہے، تو بتاؤ میں سہاگ رات کیسے منا سکتا ہوں؟ مجھے تو یہ فکر مارے ڈال رہی ہے کہ پتا نہیں، وہ زندہ بچ پائی بھی ہے یا نہیں۔ ایک جان کا خون تو میری وجہ سے ہو گا تو کیا مجھے سکون مل پائے گا؟ یہ کہتے کہتے ایان کی آنکھیں بھر آئیں۔ اب ہم عمر بھر ایک چھت تلے سک سک کر زندگی بسر کریں گے۔
شادی سے بھاگ جاتا تو ماں گولیاں کھا کر مرنے کی دھمکیاں دے رہی تھی۔ کاش تم کو شادی کے لئے کوئی دوسرا مل جاتا، تو میں اس قید سے آزاد ہو جاتا۔ شادی کی پہلی رات میرے ٹوٹے ہوئے دل نے اپنے دولہا کے منہ سے ایسے کڑوے بول سنے، تو اور زیادہ ٹوٹ پھوٹ گئی۔ میں نے سوچا کہ پہلے تو مجھ سے میری چاہت چھینی گئی اور پھر شوہر ایسا ملا جو کسی اور سے چاہت رکھتا ہے۔ میں نے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو کانپ گئی۔ انہوں نے الماری سے شراب کی بوتل نکالی اور گلاس میں ڈال کر گھونٹ گھونٹ حلق سے اتار رہے تھے۔
ذرا دیر بعد وہ لڑکھڑاتے ہوئے میری جانب آئے اور پلنگ پر بیٹھنے کی سعی میں لڑھک کر نیچے گر گئے۔ میں گھبرا کر اٹھی ، ان کو سہارا دے کر اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا۔ چند لمحوں میں ہی وہ سدھ بدھ کھو کر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ ان کو خبر نہ رہی کہ وہ رات میں نے کس طرح روتے اور سسکتے گزاری ہے۔ والدین اور سسر ساس کی عزت کا خیال کرتے ہوئے میں نے یہ بات کسی پر آشکار نہ کی اور ازدواجی زندگی کو خوشی سے گزار نے کی کوشش کی، مگر ایک دن جب میری بہن نے نبیل کا دیا ہو الفافہ مجھے دیا، تو میں حیران رہ گئی۔
اس میں ایک لاکھ کا چیک تھا، جو اس نے مجھے واپس کیا تھا ۔ یہ وہی چیک تھا، جو میرے ابو نے اسے دیا تھا۔ ساتھ خط لکھا تھا۔ میں غریب سہی مگر لالچی نہیں ہوں، لہذا یہ چیک واپس کر رہا ہوں۔ تمہارے والد کو بھجواتا تو گستاخی ہو گی۔ تم اس کو شادی کا تحفہ سمجھ کر رکھ لینا اور مناسب نہ سمجھو تو اپنے والد کو ہی تم واپس کر دینا۔ تمہارے والدین کی خوشی کی خاطر تمہارے رستے سے ہٹ رہا ہوں۔ میری دعا ہے کہ تم سدا خوش رہو۔
یہ خط پڑھ کر بہت روئی اور اپنی والدہ سے نہ صرف اپنے دولہا کا تمام احوال کہہ دیا بلکہ اُن سے گلہ کیا کہ انہوں نے بچپن کی منگنی کو بچانے کی خاطر میری خوشیاں چھین لیں اور مجھے ایسے انسان کے حوالے کر دیا جو مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ وجہ یہ تھی کہ ایان جس لڑکی سے محبت کرتا تھا، وہ غریب خاندان سے تھی اور میں جس سے محبت کرتی تھی وہ بھی غریب گھر کا چشم و چراغ تھا۔ یوں دو امیر خاندانوں نے دو غریب خاندانوں کو ٹھکرایا۔ حقائق معلوم ہونے پر میرے والدین کو بھی دکھ ہوا مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ امی ابو نے مان لیا کہ انہوں نے ایسا اس لئے کیا تھا کہ میں ایک خوشحال گھر کی بہو بنوں اور سکھی رہوں۔ میں نے کہا۔ امی ! سکھ تو نصیب والوں کو ملتے ہیں، اس کا دولت سے کم تعلق ہوتا ہے۔ نبیل غریب سہی، مگر مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے بہت سکھ دے سکتا تھا۔
میں نے ان حالات میں بھی شادی کے مقدس بندھن کو نبھانے کی کوشش کی، مگر ایان نے مجھے دل سے بیوی قبول نہ کیا تھا۔ آخر کار شادی کے چار سال بعد جو نہی میرے سسر فوت ہوئے اس نے اپنی آرزو پوری کی اور اپنی پسند کی لڑکی سے دوسری شادی کر کے مجھ سے لا تعلق ہو گیا۔ یوں میری زندگی مفت میں تباہ ہو گئی۔ میری شادی کے بعد نبیل نے دوسرے شہر تبادلہ کروالیا تھا۔ میں نے اس کا پتا معلوم کرنے کے لئے فوزیہ سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ اُسے نبیل کا پتا نہیں معلوم۔ اس نے شہر کا نام تک نہ بتایا۔ شاید اسے نبیل نے ہی منع کیا تھا کہ اس کی وجہ سے میری ازدواجی زندگی متاثر ہو، تبھی اس نے پھر کبھی مڑ کر نہ دیکھا۔
اس نے جو وعدہ میرے والدین سے کیا، اس کو پورا کیا۔ اسے کیا خبر کہ میں تو بسنے سے پہلے ہی اجڑ گئی تھی۔ ایان کی دوسری شادی کے بعد کچھ عرصہ میں ساس کے ساتھ رہتی رہی اور ایک روز تنہائی سے تنگ آکر اپنے میکے آگئی اور اب ماضی کی یادوں کو سینے سے لگائے جی رہی ہوں کہ شاید کبھی وہ مڑ کر دیکھے اور لوٹ آئے۔
ایک سال بیت گیا، ایک دن مجھےفوزیہ کی شادی کا دعوت نامہ ملا، جو اس نے خود دیا اور بتایا کہ کچھ دن پہلے اس کا رابطہ نبیل سے ہوا تھا تو تمہارا سارا حال اسے کہ سنایا، وہ بہت فکر مند ہوا لیکن تمہارے رالدین سے کیے ہوئے وعدے کی وجہ سے وہ تم سے رابطہ نہ کر سکا۔ فوزیہ کی باتیں سن کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ اس نے کہا میری شادی پر ضرور آنا ہو سکتا ہے تمہاری ملاقات کا کوئی سبب بن جائے۔ کیونکہ ابھی تک نبیل نے بھی شادی نہیں کی تھی۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ شادہ میں ضرور آؤں گی۔
اس کے بعد میں نے اپنی ماں سے نبیل کے بارے میں بات کی اور ماں نے موقع دیکھ کر میرے باپ سے نبیل کی بابت دریافت کیا، میرے باپ نے کوئی جواب نہ دیا لیکن رات کو مجھے بلا کر مجھ سے معافی مانگنے لگے، میرے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے کہا : بیٹی ہم نے تم پر ظلم کیا ورنہ نبیل جیسا فرمابردار لڑکا آج تک نہہں دیکھا۔ اگر نبیل چاہے تو ہم تمہیں اس کے جھولی میں ڈال سکتے ہیں۔ میرا دل فرط جذبات سے بھر گیا۔ آخر فوزیہ کی شادی پر میرے گھر والوں سے بنیل کی ملاقات ہوئی، میں بھی موقع دیکھ کر اس سے ملی وہ بھی بہت خوش تھا۔ میری شادی نبیل سے ہو گئی اور میں اک ہاری ہوئی بازی جیت کر نبیل کے دل میں جا بسی۔
(ختم شد)
👇👇