یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اس حادثے میں انتقال کر گئے اس وقت میری عمر 30 برس تھی اور چار بچوں کا ساتھ تھا جو ایک سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے میرے بڑے بیٹے علی کی عمر 12 برس تھی اور وہ اس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم تھا باقی تینوں بچے علی سے چھوٹے تھے۔
جب کفالت کی ذمہ داری مجھ پر آ پڑی تو فکر سے راتوں کی نیند اڑ گئی۔ والد اور بھائی بھی نہ تھے۔ جمع پونجی کب تک ساتھ دیتی۔ گھر کرائے کا تھا روز و شب اسی پریشانی میں گھل رہی تھی کہ اب وقت کیسے گزرے گا؟ کیا کسی کے اگے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے؟ میرے شوہر پولیس میں تھے ایک سپاہی کی کیا تنخواہ ہوتی ہے اور کیا پینشن؟ زندگی کی گاڑی چلانے کو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات تھی میرے میاں کے دوست فاروق ایک روز ہماری خیریت دریافت کرنے آئے تو میں نے ان کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کر دیا۔ انہوں نے کہا بہن اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں آج کل خواتین کانسٹیبل کی آسامیاں نکلی ہیں۔ تم میٹرک پاس ہو کہو تو صاحب سے کہہ کر تم کو نوکری دلوا دوں۔
میاں ہوتے تو کبھی مجھ کو پولیس کی نوکری نہ کرنے دیتے لیکن اب حالات اور تھے۔ لہذا کچھ سوچ کر حامی بھر لی۔ فاروق بھائی نے درخواست فارم پر کیا اور بڑے صاحب کے روبرو حالات جا کر بتائے۔ یوں مجھے پولیس میں لیڈی کانسٹیبل کی ملازمت مل گئی۔
انہی کی کوششوں سے پھر رہنے کو سرکاری کوارٹر بھی ملا اور میں پولیس کالونی میں رہائش پذیر ہو گئی۔ جہاں میرے بچوں کو بغیر فیس تعلیم کی سہولت میسر آگئی اور میڈیکل کی سہولت سے بھی مستفید ہونے لگے۔ یہ میری ملازمت کے دورانیہ کا یادگار واقعہ ہے جس کو قلم بند کر رہی ہوں مجھے ملازمت کرتے ہوئے چار سال ہوئے تھے کہ ایک روز بہنوئی کا فون آگیا۔ "تمہاری بہن سخت بیمار ہے منہ دیکھنا چاہتی ہو تو جلدی پہنچو"۔ یہ اطلاع ملتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ رضوان بھائی نے بتایا تھا کہ سونیا بے سد ہے اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے بس ایک دو روز کی مہمان ہے۔ یہ میری ایک ہی بہن تھی۔ گھبرا نہ جاتی تو کیا کرتی؟ بچوں کو ان کی دادی کے حوالے کر کے میں فورا ہی بذریعہ بس اسلام آباد روانہ ہو گئی۔
بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی بس ایک ہی سیٹ خالی تھی میرے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھی درمیان میں راستہ تھا اور برابر میں یہ سیٹ تھی جو خالی تھی اسی نشست پر ایک نوجوان ایک کھڑکی کی طرف پہلے سے برجمان تھا۔ جونہی بس نے جنبش کی ایک نوجوان لڑکی عمر یہی کوئی 17 برس ہوگی۔ چادر سے آدھے منہ کو ڈھانپے سوار ہوئی۔ اس نے ایک نظر میں بس کا جائزہ لیا۔ پھراس خالی نشست پر بیٹھ گئی جس پر ایک نوجوان پہلے سے موجود تھا۔ جو شکل و صورت سے نہایت شریف نظر آرہا تھا۔ یہ کسی اچھے گھرانے کا تھا اپنے ساتھ ایک جوان لڑکی کو بیٹھتے دیکھ کر کچھ پریشان نظر آنے لگا۔ تاہم لڑکی نے عقلمندی کی کہ ہاتھ میں جو بیگ اس نے پکڑ رکھا تھا اسے نوجوان اور اپنے درمیان رکھ کر ایک حد فاصلہ قائم کر لیا۔ یہ بیگ چھوٹا سا تھا جس میں تین جوڑے کپڑے باآسانی سما سکتے تھے۔
بس چل پڑی کچھ مسافر باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے اور کچھ اونگھنے لگے کسی نے اخبار بینی شروع کر دی۔ جلد ہی میری توجہ کا مرکز میرے بائیں جانب والی لڑکی بن گئی جو اجنبی نوجوان کی ہم نشست ہو گئی تھی۔ وہ کچھ گھبرائی ہوئی سی لگتی تھی اور بے آرامی محسوس کر رہی تھی بار بار ادھر ادھر دیکھ رہی تھی یوں لگتا تھا کہ وہ ذہنی طور پر کسی کی پناہ لینا چاہتی ہو وہ خود کو بے حد غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔
پولیس میں نوکری کرنے کی وجہ سے میری چھٹی حس تیز ہو گئی تھی میں نے غیر محسوس طور پر اس لڑکی پہ نظر رکھی تھی اگرچہ خود کافی پریشان تھی کہ بار بار بیمار بہن کا خیال آ رہا تھا۔ جی تو یہی چاہتا تھا کہ ابھی اور اسی وقت اڑ کر اس کے پاس جا پہنچوں لیکن مجبور تھی کہ فاصلہ بس نے وقت مقرر پر ہی طے کرنا تھا۔ کئی بار نگاہوں نگاہوں میں بس کے مسافروں کا جائزہ لیا۔ کئی مسافر اگلی منزل پر اتر گئے تھے اور کچھ سیٹیں خالی ہو گئیں لڑکی چاہتی تو اپنے لیے کوئی اورسیٹ منتخب کر سکتی تھی لیکن اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کسی دوسری جگہ بیٹھنا مناسب خیال نہ کیا۔ شاید اس وجہ سے کہ اس کے بائیں جانب میں میں بیٹھی تھی میں ایک عورت تھی اور دائیں جو نوجوان برجمان تھا وہ شریف سا تھا وہ نوجوان بت کی مانند ساکت تھا لگتا تھا کہ اپنے قریب آ کر بیٹھ جانے والی اس لڑکی کی جرائت پر گھبرایا ہوا ہے۔
بس ایک سٹاپ پر تھوڑی دیر کو رکی تاکہ مسافر کچھ کھا پی لیں اور نمازی نماز پڑھ لیں۔ کافی مسافر اتر گئے لیکن وہ لڑکی نہ اتری وہ نوجوان بھی بیٹھا رہا مجھ کو بھی اترنے کی حاجت نہ تھی سو میں نہیں اتری۔ میری بدستور توجہ ان دونوں کی جانب مرکوز تھی۔
اچانک لڑکی نے نوجوان ہم نشین سے سوال کر دیا: "اپ کہاں جائیں گے؟" میں لاہور جا رہا ہوں اس نے جواب دیا اور آپ؟ "میں اسلام آباد جا رہی ہوں اپنے مامو جان کے گھر؟ لڑکی نے سوال کے جواب کو مزید بڑھا دیا۔ تمہارے ساتھ کون ہے لڑکے نے پوچھا۔ اس سوال پر لڑکی نے خاموشی اختیار کر لی اور بے چینی سے پہلو بدلنے لگی۔ تبھی مجھ کو شک ہوا کہ کہیں یہ لڑکی گھر سے بھاگی ہوئی نہ ہو ایک لمحے کو لڑکی کی نظریں ملی تو لڑکے نے محسوس کر لیا کہ وہ اس سے رحم کی خواستگار ہے۔ ان ملتجی نگاہوں کی تاب نہ لا کر لڑکے کے ماتھے پر پسینہ آگیا میرے ذہن کے دریچے ایک ایک کر کے کھولنے لگے کہ ایسی لڑکیوں کو پکڑنا ہم پولیس والوں کا روزمرہ کا معمول تھا میں نے بغور لڑکی کی طرف دیکھا وہ مجھ کو بے حد معصوم نظر آیا۔ جس کا اس لڑکی سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا اس طرح جو غلط خیال ایک لمحہ پہلے ذہن میں ابھرا تھا وہ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا لڑکے کی بے گناہی کے بارے میں میرے ضمیر نے گواہی دے دی۔ بھری ہوئی بس میں لڑکی کو بے آسرہ دیکھ کر میں نے اپنی بہن کی بیماری کو فراموش کر دیا اور پوری توجہ اس نادان پر مرکوز کر دی۔
اب طرح طرح کے سوالات ذہن میں ابھرنے لگے کہ اگر یہ لڑکی غلط ہاتھوں میں پہنچ گئی تو اس کا حشر کیا ہوگا؟ یہ اکیلی گھر سے نکلی ہی کیوں؟ کیا یہ سچ مچ اپنے مامو کے گھر جا رہی ہے یا ۔۔۔؟ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ لڑکی نے مدھم آواز نکالی! "بھائی جان کیا آپ میرے ساتھ اسلام آباد اتر جائیں گے مجھے اپنے مامو کا گھر تلاش کرنا ہے جو میں رات کے وقت اکیلے تلاش نہیں کر پاؤں گی" اس کی بات سن کر لڑکے سے زیادہ میں چونکی تو گویا میرا اندازہ درست تھا لڑکی یقینا کسی اور لڑکے کے پیچھے گھر سے نکل پڑی تھی اور اب وہ لڑکا جانے کدھر غائب ہو گیا تھا۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے لڑکی کو بس اڈے یا ریلوے اسٹیشن بلا کر خود غائب ہو جاتے ہیں لڑکے نے لڑکی کی بات سن کر ایسے نگاہیں جھکا لیں جیسے کوئی بھائی اپنی بہن کو ننگے سر دیکھ کر نظریں پھیر لیتا ہے۔ وہ کسی سوچ میں گم ہو گیا تھا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تھوڑی دیر تک لڑکی اس کے جواب کی منتظر رہی۔ پھر اس نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا اس دوران لڑکے نے کچھ فیصلہ کر لیا تھا اس نے کہا: بے فکر رہو میں تم کو تمہارے مامو کے گھر پہنچا دوں گا۔ بس کنڈیکٹر واحد شخص تھا جس کو علم تھا کہ لڑکی اکیلی سفر کر رہی ہے اور اس کے ساتھ کوئی اور نہیں ہے۔ کیونکہ ٹکٹ لیتے وقت اس نے یہ واضح کر دیا تھا کہ بس میں صرف ایک خالی نشست ہے۔ مگر اس کے برابر ایک مرد کی سیٹ ہے۔ کوئی بات نہیں مرد کے برابر میں بیٹھ جاؤں گی کیونکہ مجھ کو لازما اسی بس سے جانا ہے۔ لڑکی نے کنڈکٹر سے اصرار کر کے یہ نشست لے لی تھی۔ جو کسی خاتون کے لیے نہیں تھی۔
جب اگلے سٹاپ پر لڑکے نے اس اکیلی مسافر کوکچھ کھانے پینے کی اشیاء لا کر دی تو کنڈکٹر کے کان کھڑے ہو گئے۔ اب اس کی نگاہیں ان دونوں کی حرکات و سکنات کی نگرانی کرنے لگی۔ لڑکے کا ضمیر صاف تھا لہذا اسے کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا اس نے اچھی نیت کے ساتھ لڑکی کو اس کی منزل تک پہنچانے کی ٹھان لی تھی۔ لہذا لاہور پر اتر جانے کی بجائے بس میں موجود رہا۔ اس نے کنڈکٹر سے کہہ کر اپنا اسلام آباد کا ٹکٹ بنوا لیا جس پر کنڈکٹر نے اسے ٹکٹ تو بنا دیا لیکن ڈرائیور کے کان میں کوئی بات بھی کہی اور ڈرائیور نے مڑ کر بغور لڑکے اور لڑکی کی نگاہوں ہی نگاہوں میں جائزہ لیا۔
راستے میں ایک جگہ روڈ حادثے کے باعث ٹریفک دو گھنٹے بلاک ہو گیا اس بس نے رات 10 بجے پہنچنا تھا مگر لیٹ ہو گئی اور تقریبا ایک بجے شب اسلام آباد پہنچی۔ میں پولیس والی تھی میرے پاس پولیس کے محکمے کا شناختی کارڈ تھا لہذا مجھ کو کسی بات کا خوف نہ تھا. بہنوئی کو بھی اطلاع دے دی تھی کہ اڈے پر آ جانا تھا۔ میں اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اگر یہ اس لڑکے کا سہارا نہ لیتی تو رات کے ایک بجے کیسے اور کہاں جاتی؟ اکیلی جواں سالہ لڑکی کو کسی کا سہارا تو لینا تھا۔ لڑکا بے شک شریف نظر آرہا تھا لیکن اس کا بھی کیا بھروسہ؟ تبھی میں نے لڑکے سے سوال کیا بیٹا تم کیا کرتے ہو؟ خالہ جی میں کیڈٹ ہوں ملتان سے ایک دن کے لیے لاہور اپنے تایا کے گھر رکنا تھا لیکن اب سیدھا اسلام آباد آگیا ہوں اور کل صبح اکیڈمی رسال پور چلا جاؤں گا۔ شاباش بیٹا اور یہ لڑکی جو تمہارے ساتھ ہے؟ خالہ جی یہ میرے ساتھ نہیں ہے اکیلی ہے اس لیے خوفزدہ ہے میں اسے اس کے گھر پہنچانے اسلام آباد آگیا ہوں ورنہ مجھے لاہور اترنا تھا۔ تم نے یہ ذمہ داری کیوں لے لی بیٹا بغیر کچھ جانے بوجھے کہ یہ کون ہے؟ کہاں سے ائی ہے؟ کیوں اکیلی سفر کر رہی ہے؟ اور کہاں جا رہی ہے؟ اس کی مدد کے چکر میں کہیں اکیڈمی سے نہ نکالے جاؤ۔ کیا یہ سوچا تم نے؟
خالہ جی اس نے مجھے بھائی جان کہا تو میں نے اپنا فرض سمجھا اور اس کو اس کی منزل تک چھوڑنے جاؤں گا۔ اپ کو پتہ ہے کہ زمانہ خراب ہے کسی اور سے مدد طلب کرنے پر یہ غلط ہاتھوں میں بھی پڑھ سکتی ہے۔ مجھے معلوم ہے بیٹا۔ مجھے معلوم تھا کہ نوجوان کیڈٹ صحیح کہہ رہا تھا کیونکہ دوران سفر میں نے اپنے کان کھڑے رکھے تھے اور ان دونوں کی ساری گفتگو سن چکی تھی اس سے بھی آگے بس ڈرائیور اور کنڈکٹر کی نیت کا فتور بھی سمجھ گئی تھی۔
تمام مسافر بس سے اتر گئے ہم بھی اتر گئے بس خالی ہو گئی یہ دونوں آخر میں اترنے لگے۔ تب کنڈکٹر نے ان کو للکارا: ٹھہرو ۔۔۔ پھر لڑکے سے مخاطب ہوا تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔ اس لڑکی کو ہم خود اس کے گھر پہنچا دیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ تمہارے ساتھ نہیں ہے۔ نہیں میں ان کے ساتھ ہوں یہ میرے بھائی ہیں۔ وہ گھبرانے لگی۔ جھوٹ مت بولو ۔۔ کنڈکٹر کے ساتھ ڈرائیور نے بھی آواز میں لائی۔ لڑکے تم اس کو اغوا کر لائے ہونا بتاؤ کیا لگتی ہے یہ تمہاری؟ اس دھمکی پر نوجوان بالکل خوفزدہ نہ ہوا وہ بس سے اتر کر چلانے لگا۔ اتارو لڑکی کو ورنہ ابھی پولیس کو اطلاع کرتا ہوں۔ نوجوان غصے سے کھول گیا۔ اتنے میں دوسرے لوگ بھی جو اس جگہ موجود تھے متوجہ ہو گئے۔
لڑکی ابھی تک بس سے نہ اتری تھی۔ ڈر تھا کہ یہ لوگ بس نہ چلا دیں اور لڑکی کو لے اڑیں۔ میں آگے بڑھی اور بیچ بچاؤ کے انداز میں مداخلت کی سنو میں نے کہا لڑائی مت کرو لڑکی کو میرے حوالے کر دو۔ تم کون ہو خالہ لڑکی کو لے جانے والی؟ وہ یک زبان ہو کے بولے۔ کیا تم لڑکی کی کچھ لگتی ہو؟ ہاں میں لیڈی کانسٹیبل ہوں یہ کہہ کر میں نے اپنا کارڈ اور موبائل نکالا تو وہ رک گئے۔ میں نے بس میں جا کر لڑکی کو بازو سے پکڑ کر نیچے اتارا۔ وہ ڈرتی کانپتی اتری اور میرا سہارا لے کر میرے ساتھ تقریبا چپک کر کھڑی ہو گئی۔ اب ڈرائیور اور کنڈکٹر شور مچا کر اس لڑکے کو خوفزدہ کرنے لگے۔ کیا لگتے ہو تم اس کے؟ تم کو اس لڑکی کی کیوں اتنی فکر ہے ؟ بولو جانا تم کو لاہور تھا اور اس کے پیچھے اسلام آباد تک آگئے تمہاری نیت خراب ہے تبھی تو اپنی منزل اس کی کارن کھوٹی کر لی ہے۔
وہاں پر موجود لوگ جمع ہو گئے۔ بولو کیا ہوا ہے بھائی؟ کیوں اتنی رات کو دنگا فساد کر رہے ہو۔ لوگوں کو ان دونوں نے لڑکے کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ تو میں نے کہا ارے بھائی اس مسافر پر کیوں برہم ہو؟ لڑکی میری تحویل میں ہے اور میں لیڈی کانسٹیبل ہوں۔ بس لیٹ ہو گئی ہے تو اس میں کسی کا کیا قصور اتنی رات گئے مسافر بچی اکیلی گھر کیسے جا سکتی ہے؟ اس کو میں اس کے گھر پہنچا دوں گی پھر میں نے لڑکے کو کہا بیٹا تم ٹیکسی روکو۔ اتنے میں مجھے بہنوئی صاحب دکھائی دیے جو سواری ساتھ لائے تھے تبھی میں نے لڑکے کو کہا تم بھی ساتھ آؤ ہم تینوں بہنوئی صاحب کی لائی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئے۔
ڈرائیور اور کنڈکٹر نے دیکھا کہ اب دال گلنے والی نہیں ہے تو مفت کی سردردی مول لینے کی بجائے وہ بھی ادھر ادھر ہو گئے۔ کیونکہ بہنوئی صاحب وردی میں تھے لڑکی کے بتائے ہوئے ایڈریس پر ہم تقریبا ایک گھنٹے بعد مطلوبہ جگہ پہنچے۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ ہم نے بار بار گھنٹی بجائی مگر گھر والوں نے جواب نہ دیا میں ان دونوں مہمانوں کو اپنے ساتھ بہنوئی صاحب کے گھر لے آئی وہ بھی پولیس کے محکمے میں سب انسپیکٹر تھے لیکن میرے کہنے پر انہوں نے ان کو تھانے لے جانا مناسب نہ سمجھا۔ رات کو ہم سو گئے صبح دوبارہ لڑکی کے رشتہ داروں سے رابطہ کیا اور اس کو اس کے مامو کے گھر پہنچا دیا یہ البتہ اس نے نہ بتایا کہ کس وجہ سے وہ اپنے گھر سے اکیلی مامو کے گھرآئی تھی۔ بعد میں رابطہ کرنے پر اس کی ممانی نے بتایا کہ سوتیلی والدہ کی وجہ سے وہ مایوس ہو کر گھر سے اکیلی چل پڑی تھی۔ وہ کسی لڑکے کے ساتھ نہیں نکلی تھی۔ نوجوان اپنا اخلاقی فریضہ نباہ کر اکیڈمی چلا گیا۔ اس نے مجھ سے التجا کی کہ اس معاملے کو پولیس تک نہ پہنچاؤں اس طرح ایک لڑکی کی بدنامی ہوگی۔ دوسرے اس کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے ہو سکتا ہے اس وجہ سے اس پر کوئی ایکشن لے لیا جائے۔
میں نے اس کی شرافت کو دیکھتے ہوئے بھرم رکھا۔ یوں ایک لڑکا مفت کی سزا سے بچ گیا اور ایک نادان لڑکی کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہونے سے رہ گئی۔ ہم پولیس والوں کے بارے میں لوگوں کے نظریات غلط ہیں وہ ہم پر اعتبار نہیں کرنا چاہتے لیکن سب پولیس والے برے نہیں ہوتے۔ دنیا میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے خواہ وہ اس مسافر لڑکے جیسے فوجی جوان ہوں یا پولیس کے اہلکار۔ شاید خدا نے میری اس نیکی کو پسند کیا تھا تبھی میری بہن جو بستر مرگ پر تھی وہ اس بچی کی دعا سے رفتہ رفتہ صحت یاب ہو گئی تھی اور آج اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اکیڈمی والا نوجوان بھی آج پاک فوج میں کوئی بڑا افسر بن چکا ہوگا۔
(ختم شد)
