Sublimegate Urdu Stories

میں وہ بدنصیب ہوں جسے ماں کی جنت نگری سے نکال کر اندھے کنویں میں ڈال دیا گیا، حالانکہ میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ جب ہوش سنبھالا، تو گھر کو جنت نظیر پایا۔ کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ والد صاحب کا کاروبار اچھی طرح چل رہا تھا۔ خدا نے ہر نعمت عطا کر رکھی تھی۔ ابو ہم تینوں بہن بھائیوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ صبح آفس جانے سے قبل ہم سب کے ماتھے پر پیار سے بوسہ دیتے، تب گھر سے نکلتے تھے۔ ماں بھی سلجھی ہوئی، دیندار خاتون تھیں۔ ان کا زیادہ وقت گھرداری میں گزرتا تھا۔ شوہر سے انہیں بے حد محبت تھی، اس لیے ان کے ہر حکم کو برضا و رغبت مانتی تھیں۔ والد صاحب بھی ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے۔ 

پھر اچھی بھلی محبتوں بھری زندگی کو نظر لگ گئی، اور امی کی خوشیوں کو زہریلی ناگن نے ڈس لیا۔ ایک روز امی اور ابو میں کسی چھوٹی سی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ جہاں پیار ہوتا ہے، وہاں کبھی کبھار جھگڑا بھی ہو جاتا ہے، اور ایسا تو ہر گھر میں ہوتا رہتا ہے۔ پہلے تو ابو منہ پھلا کر بیٹھ گئے، امی بھی کچن میں برتنوں کی آوازیں نکالتی رہیں۔ پھر ابو نے مجھے بلا کر کہا کہ دیکھ گُڈی! تیری ماں تو مجھ سے لڑتی ہے، کیا میں تمہیں دوسری ماں لا دوں؟ وہ تم سے بہت محبت کرے گی اور میرے ساتھ جھگڑا بھی نہیں کرے گی۔ میں ہنس پڑی، جانتی تھی کہ ابو مذاق کر رہے ہیں۔ امی نے بھی اس بات کا خاص نوٹس نہیں لیا۔ ابو اپنی گاڑی میں دفتر جاتے تھے۔ ان کے راستے میں ایک گاؤں آتا تھا۔ اُس گاؤں کی لڑکی شگفتہ شہر کے ایک اسپتال میں نرس تھی، جو ابو کے آفس کے قریب واقع تھا۔ ایک دن جب بادل چھائے ہوئے تھے اور بارش شروع ہو گئی، ابو اپنی گاڑی میں آفس جا رہے تھے۔ وہ اس وقت اُس گاؤں سے گزر رہے تھے جہاں سے شگفتہ اکثر سڑک پر آ کر سواری پکڑا کرتی تھی۔ وہ بارش میں بھیگ رہی تھی، اور وین ابھی تک نہیں آئی تھی۔

 تبھی ابو نے، از راہِ ہمدردی، گاڑی روک لی۔ شگفتہ کو اور کیا چاہیے تھا؟ وہ فوراً گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ بڑی باتونی لڑکی تھی۔ اس کی ماں بیوہ تھی اور ایک بھائی تھا، جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب چلا گیا تھا۔ گاؤں میں ان کا آبائی مکان تھا۔ غربت کی وجہ سے یہ ماں بیٹی وہاں رہنے پر مجبور تھیں، کیونکہ گاؤں کے اخراجات شہر کے مقابلے میں کم تھے اور مکان کا کرایہ بھی نہیں دینا پڑتا تھا۔ پہلے ہی دن شگفتہ نے ابو سے کچھ ایسی باتیں کیں کہ ان کے دل میں اس کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی۔ ابو نے تمام باتیں آ کر امی کو بھی بتا دیں۔ پھر یہ روز کا معمول بن گیا کہ ابو سڑک سے گزرتے، تو شگفتہ وہاں کھڑی ہوتی، جیسے ان کا انتظار کر رہی ہو۔ وہ اشارے سے گاڑی رکوا لیتی اور ساتھ بیٹھ جاتی۔ ابو بھی سوچتے کہ دفتر تو ویسے ہی اُدھر ہے، تو کیوں نہ اسے ساتھ لے جاؤں؟ بے چاری کرایے اور تکلیف سے بچ جائے گی۔ 

یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تو تکلیف سے بچ رہی ہے، مگر ہمارے لیے مستقبل میں آنے والا ایک بڑا عذاب بن رہی ہے۔ اب وہ روز ابو کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر سفر کرتی، اور کہتی کہ آپ کے ہمراہ سفر کرنا اچھا لگتا ہے، میری خوش نصیبی ہے کہ آپ سا ہم سفر ملا۔ بے شک یہ سفر چند لمحوں کا ہی سہی، مگر میری زندگی کا حاصل ہے۔ ابو پہلے ہر بات آ کر امی کو بتا دیا کرتے تھے، ساتھ ساتھ مذاق بھی کرتے، جنہیں امی سنجیدگی سے نہیں لیتیں تھیں۔

ابو جوان اور خوبصورت تھے اور ان کا اپنا کاروبار بھی خاصا چل رہا تھا۔ دولت کی کمی نہ تھی۔ بے شک وہ دل پھینک قسم کے انسان نہیں تھے، لیکن تھے تو مرد، اور مرد کو عورت کے معاملے میں بہکنے میں دیر نہیں لگتی۔ شگفتہ چند ہی دنوں میں ابو کے دل میں بس گئی۔ پہلے پہل وہ اس کی ہر بات امی کو بتا دیا کرتے تھے اور امی ان پر اندھا اعتماد کرتی تھیں، لیکن اب وہ شگفتہ سے متعلق باتیں اپنی وفادار شریکِ حیات سے چھپانے لگے تھے۔ ایک دن وہ گھر آئے تو بہت پریشان تھے۔ رات کو جب ہم سب سو گئے تو امی نے پوچھا، آپ کیوں پریشان ہیں؟ کچھ بتائیے تو سہی۔ تب انہوں نے بتایا کہ شگفتہ سے جان چھڑانا چاہتا ہوں تاکہ میرا ہنستا بستا گھر قائم رہے، لیکن وہ پیچھا نہیں چھوڑتی۔ 

صبح میرے راستے میں کھڑی رہتی ہے اور شام کو بھی۔ امی نے مشورہ دیا کہ آپ اپنا راستہ بدل لیں یا دفتر جانے کا وقت تبدیل کر لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ چڑیل آپ کو ہم سے چھین لے۔ اس پر ابو ہنس پڑے۔ ان دنوں میں کچھ ہی کلاس میں پڑھتی تھی۔ ابو مجھے بے حد پیار کرتے تھے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی مجھ سے باپ کا بے لوث پیار چھین سکتا ہے۔ سب لوگ کہتے تھے کہ یہ راؤ رام جی صاحب کی شہزادی ہے، اور ان دنوں میں خود کو واقعی کسی شہزادی سے کم نہیں سمجھتی تھی۔ ابو پوری طرح شگفتہ کی کم عمری اور چالاکی کے سحر میں گرفتار ہو چکے تھے۔ امی نے بہت جلد اس سارے معاملے کو محسوس کر لیا، مگر وہ صابر اور دانا خاتون تھیں۔ شروع میں انہوں نے ٹھنڈے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی، بعد میں تلخ لہجہ بھی اختیار کیا، مگر سب بے سود رہا۔

 پانی سر سے گزر چکا تھا۔ شگفتہ ایک جونک بن کر ہماری خوشیوں کا رس چوس رہی تھی۔ ابو کی کمائی جیسے دیمک کی نذر ہو گئی۔ وہ شگفتہ کے ساتھ شاپنگ اور سیر و تفریح پر جاتے، اور ہم صرف حسرت سے دیکھتے رہ جاتے۔ امی کا مان بھی ٹوٹ گیا، اور جب مان ٹوٹ جائے تو انسان اندر ہی اندر مرنے لگتا ہے۔ وہ بے بس ہو گئیں، کمزور پڑنے لگیں، اور شوہر کے سامنے خود کو بے اختیار محسوس کرنے لگیں۔ آخر وہ دن آ ہی گیا جس کا ماں کو خوف تھا۔ پتا نہیں ابو کب سے شگفتہ کے گھر آنے جانے لگے تھے، کسی کو خبر نہ تھی۔ جو کچھ کماتے، سب اس پر لٹا دیتے تھے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا ایسی عورتوں کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، جو دوسروں کے بسے بسائے گھر اجاڑ دیتی ہیں؟

جب ابو کے قدم کسی طرح نہ رکے تو ماں نے خاندان کے کچھ بزرگ رشتہ داروں سے شکایت کر دی۔ ان لوگوں نے آ کر والد صاحب کو نہ صرف سمجھایا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر آپ نے اس نرس سے نکاح کیا یا اس کے گھر آنا جانا بند نہ کیا، تو ہم آپ کا سوشل بائیکاٹ کر دیں گے اور اس نرس کو اس کی ماں سمیت گاؤں بدر کر دیں گے۔ بزرگ ہر لحاظ سے میرے والد سے زیادہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ ان کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور ابو نے بظاہر شگفتہ سے ناتا توڑ لیا۔ کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ والد صاحب نے اپنا چلتا ہوا کاروبار فروخت کر دیا ہے اور اپنی جائیداد بھی بیچ دی ہے۔ امی سے انہوں نے کہا کہ تم نے مجھے برادری میں ذلیل و رسوا کیا ہے، اب میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ 

امی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ واقعی ایسا قدم اٹھا لیں گے، لیکن انہوں نے ایسا کر دکھایا۔ ایک دن خبر ملی کہ وہ تمام سرمایہ اکٹھا کر کے شگفتہ کو ساتھ لے کر بیرونِ ملک چلے گئے ہیں۔ امی ہاتھ ملتی رہ گئیں۔ اب ان کے پاس کیا رہ گیا تھا؟ تین بچوں کا بوجھ انہیں اکیلے ہی اٹھانا تھا۔ کچھ عرصے بعد کسی نے اطلاع دی کہ ابو نے کراچی میں ایک گھر خریدا ہے اور وہاں نئی بیوی کے ساتھ مقیم ہیں۔ امی کے ایک ماموں کراچی میں رہتے تھے۔ ماں نے انہیں خط لکھا تو انہوں نے امی کو اپنے ہاں بلا لیا۔ ماموں کا گھر بھی خاصا بڑا تھا؛ تیرہ، چودہ کمرے اوپر نیچے بنے ہوئے تھے۔ ایک پورشن میں ماموں اور ممانی رہتے تھے اور باقی گھر خالی پڑا تھا۔ ممانی بیمار تھیں اور گھر کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی تھیں، جبکہ کراچی میں کسی گھر کے لیے کل وقتی ملازمہ ملنا بہت مشکل تھا۔ 

ماموں نے جب امی کے حالات دیکھے تو کہا: تم یہاں رہ جاؤ، تمہاری ممانی بیمار رہتی ہیں، ان کو اور گھر کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ میرا اتنا بڑا مکان ہے، رہنے کی جگہ بھی بہت ہے۔ جب تک تمہارے شوہر سے کوئی معاملہ طے نہیں ہوتا، تمہارا گاؤں واپس جانا بے سود ہوگا۔ امی نے ماموں کی بات سے اتفاق کر لیا۔ وہ ہر صورت اپنے خاوند سے متعلق رہنا چاہتی تھیں اور ہر قربانی دینے کو تیار تھیں۔ وہ ہم بچوں کو والد کی شفقت سے محروم نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ یوں ماموں کا گھر بار امی نے سنبھال لیا، جس سے ممانی کو بھی سکون مل گیا۔ ماموں نے ہمارے تمام اخراجات کا ذمہ اٹھا لیا۔ جب تھوڑا وقت بچتا تو امی محلے والوں کے کپڑے سی لیا کرتی تھیں، جس سے ان کے ہاتھ میں کچھ رقم آ جاتی تھی۔ ممانی کے بھائی امریکا میں رہتے تھے۔ ان کا ایک بیٹا عامر تھا، جو نہایت خوبرو اور لائق لڑکا تھا۔ یہ لوگ پاکستان میں مستقل سکونت کے لیے آئے تھے۔ ماموں نے بھاگ دوڑ کر کے اپنے گھر کے قریب ہی ان کے لیے مکان دلوا دیا۔

عامر نے کامرس کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہ روز ماموں کے گھر آ جاتا تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں چند سال بڑا تھا۔ جب آتا، تو بہت امید افزا باتیں کرتا تھا۔ اسے ہمارے دکھوں کا پورا احساس تھا، کیونکہ وہ حساس دل اور محبت کرنے والا لڑکا تھا۔ امی سے بھی بہت ادب اور احترام سے پیش آتا تھا۔ ایک دن میں کچن میں کام کر رہی تھی کہ وہ وہاں آ گیا۔ ان دنوں میں دسویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ اس نے کہا، طاہرہ، میں تمہارے دکھ سمجھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ خالہ جان کا سہارا بن جاؤں۔ تم حوصلہ نہ ہارنا، میں تمہاری کشتی کو دکھوں کے منجدھار سے نکال لوں گا۔ یہ بات سن کر میں چونک گئی۔ سوچا، جانے کیا کہہ رہا ہے۔ جب ہمارے اپنے والد نے وفا نہ کی، تو اور کون کرے گا؟

ہم تینوں بچوں کو ماموں نے اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔ وہ امی کو اتنے پیسے دے دیتے تھے کہ ہمارا کچھ نہ کچھ گزارا ہو جاتا تھا۔ امی اس کے بدلے صدق دل سے ان کی بیوی کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ ہم ماموں کے یہاں چھ سال تک رہے۔ امی واپس گاؤں نہ گئیں، کیونکہ یہاں ان کے بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اسکول سے آ کر میں کچن کا سارا کام سنبھال لیتی تھی۔

ایک دن امی، ممانی کے ساتھ اسپتال گئی ہوئی تھیں اور میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی کہ عامر آ گیا۔ وہ کرسی کھینچ کر میرے قریب ہی بیٹھ گیا۔ اس نے کہا، تم اکیلی ہو، شاید مجھے یہاں نہیں بیٹھنا چاہئے، لیکن میں تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ پھر اس نے اپنی جیب سے ایک انگوٹھی نکالی اور مجھے دیتے ہوئے کہا، یہ انگوٹھی پہن لینا، یہ میرے نام کی ہے۔ اب تمہیں اس کی لاج رکھنی ہوگی۔ میں تعلیم مکمل کر لوں، پھر میرے والدین تمہاری امی سے تمہارا رشتہ مانگنے آئیں گے۔
میں حیرت سے انگوٹھی کو تکتی رہ گئی۔ وہ یہ نرالی بات کر کے چلا بھی گیا۔ اس نے صرف اپنی بات کہی، میرے جواب کا انتظار بھی نہ کیا، جیسے اسے یقین ہو کہ میں اس کی بات کا جواب ہاں میں ہی دوں گی۔ اسے خدا جانے مجھ پر اتنا اعتماد کیوں تھا، جبکہ میں اس سے بہت کم بات کرتی تھی۔ ایسی کوئی بات ہمارے درمیان کبھی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے وہ انگوٹھی اپنے صندوق میں چھپا کر رکھ لی اور کسی سے اس کا ذکر نہ کیا۔

ایک دن ماموں خوشی خوشی آئے اور امی سے کہا کہ خوش ہو جاؤ، تمہارا میاں بیرونِ ملک سے واپس آ گیا ہے، اور اب وہ پاکستان میں ہی رہے گا۔ میری اس سے ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے اسے بتا دیا ہے کہ تم لوگ میرے پاس رہتے ہو۔ اس نے کل آنے کا وعدہ کیا ہے، دیکھو شاید شام تک آ جائے۔ ماموں نے یہ بھی کہا کہ اُس کی بیوی اس کے ساتھ تھی، اس لیے میں تم لوگوں کے بارے میں زیادہ بات نہ کر سکا۔ یہ خبر سن کر میں اتنی خوش تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ لگتا تھا جیسے کسی نے سارے جہان کی خوشیاں دے دی ہوں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پانچویں جماعت کا امتحان دیا تھا، تو وہ ہم سے جدا ہو گئے تھے، اور اب میں میٹرک کے پرچے دے چکی تھی۔ ماموں نے بتایا کہ وہ کل آ رہے ہیں، تو میں خوشی سے بے حال ہو گئی۔ دل چاہتا تھا کہ کل بھی آج ہو جائے اور میں اُڑ کر ان کے سینے سے جا لگوں۔

اگلے روز شام پانچ بجے ابو آ گئے۔ وہ ماموں کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھے رہے۔ میں خود وہاں گئی اور ان کے گلے لگ گئی۔ انہوں نے ویسے ہی پیار کیا، گلے سے لگایا، جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔ پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے کہ بیٹی، کیا تم میرے ساتھ اپنے گھر چلو گی؟ میں نے کہا، اگر امی چلیں گی تو میں بھی چلوں گی۔ انہوں نے کہا کہ امی کو بعد میں لے آئیں گے۔ میرے بھائی بھی ابو سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ پھر وہ ہم تینوں کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے آئے، جو ہماری امی کا نہیں بلکہ شگفتہ کا گھر تھا۔ وہاں ہمارے دو بھائی اور دو بہنیں اور بھی تھے، جو شگفتہ سے تھے۔ اگلے دن وہ ہم سب کو اپنی بیوی کے گاؤں لے گئے، اور مجھے اور میرے دونوں بھائیوں کو شگفتہ امی کے سپرد کر کے خود شہر واپس آ گئے۔ دراصل وہ ہماری ماں کے ساتھ آخری فیصلہ ہمارے سامنے نہیں کرنا چاہتے تھے۔
وہ ماں سے ملنے ماموں کے گھر گئے، مگر خالی ہاتھ نہیں، بلکہ اپنے ساتھ طلاق کے کاغذات بھی لے گئے۔ وہ دن امی کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ اگر وہ ہماری زندگی سے چلے ہی گئے تھے، تو یہی بہتر تھا کہ دوبارہ کبھی نہ ملتے۔ امی کی آس اور بھرم تو قائم تھا، جس کے سہارے وہ زندگی کے دن گزار رہی تھیں۔ لیکن اتنے دنوں بعد ملے بھی تو بیوی کا یقین اور اعتبار توڑنے کے لیے۔ یقین کی شکست اور ہمیشہ کی ناامیدی ایسے زخم ہیں جنہیں آدمی سہہ نہیں سکتا۔ اس سے تو مر جانا ہی بہتر ہے۔ امی کو طلاق شگفتہ نے دلوائی تھی۔ اس نے ابو سے کہا تھا کہ میں تمہارے تینوں بچوں کو قبول کر لوں گی، لیکن تمہاری بیوی کو نہیں۔ اگر تم نے اسے طلاق نہ دی، تو میں تم سے طلاق لے لوں گی۔

آزادی کا پروانہ میری ماں کے لیے موت سے کم نہ تھا۔ طلاق کا کاغذ دیکھتے ہی وہ اس قدر روئیں کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ پاس پڑوس میں ان کے رونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ماموں بس ان کا چہرہ تکتے رہ گئے۔ میرے دونوں بھائی ابو کے ساتھ چلے گئے، لیکن وہ مجھے لینے نہ آئے۔ روز ان کا انتظار کرتی، سارا دن کام کرتی اور شام کو تھک کر سو جاتی۔ مجھے خبر نہ تھی کہ وہ ماں کو طلاق دینے گئے ہیں؛ سمجھ رہی تھی کہ ماں کو لینے گئے تھے۔

ایک دن اکیلی کمرے میں سو رہی تھی کہ شگفتہ کے بڑے بھائی نے آ کر دروازہ بند کر دیا۔ اس نے میرا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر کے جو سلوک کیا، وہ میں لکھ نہیں سکتی۔ اُس وقت ہماری سوتیلی نانی پاس کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ باپ کے جرم کی سزا مجھے ملی۔ پندرہ دن بعد ابو آئے، مگر ان کے آنے کی مجھے خوشی نہ ہوئی، بلکہ دل میں نفرت ہی محسوس ہوئی۔ ان کی ساس نے کہا، لڑکی بہت اچھی ہے، اس کو میرے پاس رہنے دو، اس کے آنے سے مجھے بہت آرام ملا ہے۔ ابو بولے، اگر یہ بات ہے تو ٹھیک ہے، ہم آپ کے بیٹے سے ہی اس کا نکاح کر دیتے ہیں۔ یوں اسی درندے سے میرا نکاح کر دیا گیا جس نے میرا سب کچھ لوٹ لیا تھا۔
میں، جو شہر میں پلی بڑھی تھی، گاؤں کی مٹی میں دفن ہو گئی۔ پیاری ماں بھی چھن گئی۔ وہ میرے نکاح میں نہ آ سکی۔ وہ نازک ہاتھ جو کتابیں اور بستہ اٹھاتے تھے، اب گھاس کھودتے اور چھاج پھٹکتے ہیں۔ کبھی چہرہ دھو لوں، تو آئینہ نہیں دیکھتی۔ اپنی ذات کو بھلا دینا چاہتی ہوں۔ خبر نہیں، ماں کس حال میں ہے؟ زندہ ہے یا ہمارے غم میں مر گئی۔ بھائی بھی نہیں آتے۔ میں تو لڑکی تھی، باپ کا ستم سہ لیا، مگر وہ تو لڑکے تھے، ایک دن خود ہی بھاگ کر ماں کے پاس چلے گئے۔ ابو نے لاکھ کوشش کی کہ وہ واپس آ جائیں، مگر انہوں نے شگفتہ کے گھر میں رہنے سے انکار کر دیا۔ سوتیلی ماں بھی ان کو رکھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے ابو سے کہا کہ اگر وہ نہیں آتے تو انہیں عاق کر دو۔ اور ابو نے واقعی انہیں عاق کر دیا۔ وہ پھر بھی اس خوف سے نہیں آتے کہ کہیں ابو انہیں زبردستی نہ روک لیں۔

میں اس دن کا انتظار کر رہی ہوں، جب میرے بھائی بڑے ہو جائیں گے اور آ کر مجھے اس دوزخ سے نکالیں گے۔ پھر میں اپنی ماں کے پاس رہوں گی اور ان کی خدمت کروں گی۔ خدا جانے وہ دن کبھی آئے گا بھی یا نہیں؟ بس، اسی آس میں زندہ ہوں۔