غیرت مند عاشق - آخری قسط

Sublimegate Urdu Stories

اگلی صبح یہ دردناک خبر سننے کو ملی کہ کامران قومے کی حالت میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔ رضوان اور محمود یہ خبر سن کر فورا ہسپتال پہنچے تو وہاں پر کہرام مچا ہوا تھا۔ کامران کی والدہ پہلے ہی اس حادثے کا شکار ہو چکی تھی اور اب کامران بھی بھری جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ خوشیاں غموں میں بدل چکی تھیں۔ رضوان اور محمود کامران کے مامو سے ملے اور انتہائی دکھ کا اظہار کیا اور انہیں تسلی دی کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے۔ کامران کے ماموں نے کہا جہاں ہم اس قدر تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ یقینا آپ پر بھی دکھوں کے پہاڑ گرے ہیں اپ کی بیٹی کی خوشیاں بھی پل بھر میں دکھوں کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ محمود خاموشی کے ساتھ ان کی بات سن رہا تھا اس کا سر جھکا ہوا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اب دعا کی شادی نہیں ہو پائے گی تو وہ کیسے شادی کر سکتا ہے؟

 لیکن دلدار بیگم سے ہونے والی ملاقات میں جو باتیں طے پائی تھیں ان کے مطابق اگلے چند دنوں میں محمود اور فرزانہ کی شادی ہونا تھی۔ یہ بات محمود کے دل کو تڑپا رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے کیونکہ اس کے دل میں دعا کے لیے بے حد محبت تھی۔ بہت زیادہ احترام تھا اور محبت کی پاکیزگی کی حد یہ تھی کہ کبھی بھی اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی دعا کے لیے اس کے دل میں کسی بھی قسم کا کوئی غلط خیال نہیں آیا تھا۔ تدفین سے فارغ ہو کر رضوان نے محمود سے کہا ہمیں اب گھر چلنا چاہیے گھر میں رخسانہ اور دعا ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ رخسانہ بھی رضوان کے ساتھ آنا چاہتی تھی لیکن رضوان اور محمود کو جلدی جلدی گھر سے نکلنا پڑا جس کی وجہ سے رخسانہ کامران کا آخری دیدار بھی نہ کر سکی۔

یہ رات بھی انتہائی افسردہ رات تھی۔ بادلوں نے چاند کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ گہری تاریخی رات میں ایک عجیب سا دکھ چھپا ہوا تھا۔ ہر کوئی اپنی جگہ اس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ ان دکھ بھر حالات میں محمود کی شادی بہت سادگی سے کر دی جائے تو اچھا ہے۔ پہلے بھی یہ طے پایا تھا کہ سادگی کے ساتھ محمود کا نکاح کر کے فرزانہ کو اپنے گھر لے آئیں گے۔ اس لیے اب رضوان اور رخسانہ پھر سے محمود کے کمرے میں جا پہنچے اور آنے والے کل کے لیے اس سے مشاورت کرنے لگے۔ محمود کمرے میں جاگ رہا تھا بلکہ ایک آرام دہ چیئر پہ بیٹھا گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور رضوان اور اس کی بیگم رخسانہ کمرے میں داخل ہوئے ہیں اور اس کے سامنے خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

 تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر رخسانہ نے کہا: محمود بیٹا پتہ نہیں ہمیں خوشیاں راس کیوں نہیں آتیں۔ ہماری بیٹی کی خوشیوں کو تو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری وجہ سے کسی اور کی بیٹی کو دکھوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ فرزانہ اور تمہاری شادی نہایت سادگی کے ساتھ لازما کر دی جائے۔ رضوان نے رخسانہ کی بات مکمل کرتے ہوئے کہا: ایک دو دنوں کے اندر میں اور رخسانہ دلدار بیگم سے ملیں گے اور اس سے کوئی تاریخ لے لیں گے چند مہمانوں کے ساتھ ہم فرزانہ کا تم سے نکاح کر دیں گے اور اسی دن رخصتی بھی لے لیں گے میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر رہے گا۔ محمود کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن جیسے اس کی زبان تالو سے چپک کے رہ گئی۔ وہ بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھ۔ا دل کی بات دل میں ہی رہ جاتی تھی۔ وہ کبھی ہمت کر نہیں پایا کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ وہ دل کی بات کھل کے اپنے چچا اور چچی کے سامنے رکھ سکتا لیکن ہمیشہ کی طرح محمود نے اپنے چچا اور چچی کے سامنے اپنی رضامندی کے اظہار کے لیے سر جھکا لیا۔

تھوڑی دیر تک رضوان اور رخسانہ اس معاملے پر محمود سے بات کرتے رہے چونکہ رات کافی گزر رہی تھی اس لیے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ لیکن نیند محمود کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس کی آنکھوں میں بار بار دعا کا سراپہ لہرا رہا تھا۔ وہ اس سے دور نہیں ہونا چاہتا تھا ایک اور بات محمود کو بہت پریشان کیے جا رہی تھی کہ جس لڑکی سے اس کا نکاح ہونے جا رہا ہے کیا وہ اس لڑکی کو ایک بیوی کی حیثیت سے اتنی توجہ محبت دے پائے گا؟ کیونکہ اگر دعا کی شادی ہو جاتی تو پھر محمود اپنی بیوی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتا تھا لیکن دعا کی موجودگی میں وہ اپنی ہونے والی بیوی کو شاید وقت نہ دے پائے اور یہ بات دعا کو بھی کسی صورت گوارا نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ محمود کو بار بار کہہ چکی تھی کہ وہ بھی اپنی شادی ختم کر دے۔ بار بار محمود کے دل میں ایک ہی خیال اٹھ رہا تھا کہ اس کی شادی سے دعا کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے۔ اس لیے اس کے دماغ میں وسوسوں کے طوفان اٹھ رہے تھے۔

 اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور دعا اس کے کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے پاس بیٹھ کر اس کو جھنجوڑا۔ اچانک محمود اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نکلا اور نظر اٹھا کر دعا کی جانب دیکھا۔ جس کی انکھوں میں آنسو موتیوں کی طرح بہہ رہے تھے۔ محمود کا دل دھک سے رہ گیا اس نے فورا ہی اپنے ہاتھوں سے دعا کی آنکھوں سے  بہتے آنسو صاف کیے اور بولا: ارے گڑیا تمہیں کیا ہوا ہے؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کیوں روئے جا رہی ہو؟ تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ بتاؤ تو صحیح تمہیں کیا ہوا ہے؟ دعا بولی: سب کچھ جانتے ہوئے بھی اب انجان بنے رہتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ امی اور ابو آپ کے پاس کس مقصد کے لیے آئے تھے اور اپ نے بھی مجھے ان سے بات کرنے سے منع کیا ہوا ہے اگر آپ فرزانہ سے شادی کر لیں گے تو پھر آپ جانتے ہیں کیا ہو سکتا ہے مجھ سے یہ کسی بھی صورت برداشت نہیں ہوگا۔ میرا دل یہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ آپ میرے علاوہ کسی کے ساتھ بیٹھے۔ میرے علاوہ کسی سے بات کریں۔ تو پھر جانتے ہیں اس بات سے مجھے کتنی تکلیف پہنچے گی تو پھر آپ میری آنکھوں میں آنسو دیکھتے رہیں گے۔ پھر شاید آپ کو یہ آنسو پونچھنے کی فرصت بھی نہ ملے گی۔

محمود نے بے قرار ہو کر دعا کا ہاتھ تھام لیا اور اسے سمجھانے لگا: ارے نہیں گڑیا ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ تمہارے سارے لاڈ اٹھاؤں گا۔ تمہیں کالج بھی چھوڑا کروں گا اور لے کے بھی آیا کروں گا اور تمہاری ساری خواہشیں بھی پہلے کی طرح پوری کیا کروں گا۔ بس تم نے کبھی رونا نہیں ہے اور ہمیشہ خوش رہنا ہے۔ دعا نے ایک گہرا سانس لیا اور بولی: شاید اب خوش رہنا میری قسمت میں نہیں رہے گا۔ میری خوشیاں تو اب آپ سے وابستہ ہیں۔ آپ چاہیں تو مجھے خوشیاں دے سکتے ہیں نہیں تو پھر میری آنکھوں میں صرف آنسو ہی دیکھیں گے۔ ٹھیک ہے آپ میری بات نہیں مان رہے تو میں ابھی اللہ سے دعا کروں گی کہ آپ کی شادی فرزانہ سے کبھی بھی نہ ہؤ بلکہ کسی سے بھی نہ ہو۔ تاکہ آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں محمود نے جواب دیا: گڑیا بات یہ ہے کہ بہت سارے معاملات بڑوں کے سپرد ہیں ہماری زندگی کے فیصلے بڑوں نے کرنے ہیں اور بڑوں کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ میرے چچا اور چچی جان میرے دل کے بہت قریب ہیں۔ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔ اس لیے ان کے ہر فیصلے پر سر جھکا دیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری کسی بات سے یا کسی فیصلے سے ان کو تکلیف پہنچے تو پھر میں اپنے اپ کو کبھی بھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔ اس لیے میری زندگی کا ہر فیصلہ کرنے کا حق صرف انہی کو ہے۔

دعا نے فورا کہا: میں بھی تو ان کی بیٹی ہوں تو میرا بھی تو بہت حق بنتا ہے آپ پہ بلکہ آپ تو خود یہی کہتے ہیں کہ دعا کا سب سے زیادہ حق مجھ پہ ہے۔ تو پھر میری بات کیوں نہیں مان لیتے۔ محمود دعا کی باتوں سے پریشان ہو گیا اور اخر اس نے کہا گڑیا میں آپ کی بات بھی مانتا ہوں۔ آپ جیسا کہتی ہیں ویسا کرتا ہوں لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کو کرنے کا اختیار میرے پاس بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں سب کچھ اللہ پہ چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ بہتر کارساز ہے کیونکہ ہم نے وہ سوچا بھی نہیں ہوتا اور اللہ وہ کر دیتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے اور ہمیشہ انسان کی بہتری کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں خوش رہنا چاہیے۔ دعا خاموشی سے محمود کی باتیں سن رہی تھی۔ کافی دیر اس کے پاس بیٹھی رہی اور پھر محمود نے کہا: گڑیا رات بہت ہو چکی ہے اب تم بھی سو جاؤ اور کل سے میں چچا اور چچی جان سے اس معاملے پہ بات کروں گا اور تم بھی کوشش کرو کہ کالج جانا شروع کر دو۔ اور اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔ تمہیں ایک کامیاب زندگی گزارنی ہے۔

دعا نے محمود کی اس آخری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ پوری رات محمود سو نہیں سکا ۔ صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اس کی آنکھ لگی لیکن وہ جلدی ہی اٹھ گیا کیونکہ آج اسے افس بھی جانا تھا۔
٭٭٭٭٭
صبح کے 10 بج رہے تھے کہ محمود کو اپنے موبائل فون پر فرزانہ کی کال رسیو ہوئی۔ فرزانہ محمود سے کسی ضروری معاملے پر بات کرنا چاہتی تھی۔ اس نے محمود سے ملنے کے لیے کہا تھا۔ محمود نے فرزانہ سے ملنے کی حامی بھر لی۔ لیکن فرزانہ محمود سے ابھی ملنا چاہتی تھی۔ محمود نے فرزانہ سے پوچھا: ایسی کیا بات ہے کہ آپ شام تک صبر نہیں کر رہی۔ کیا سب ٹھیک ہے؟ اگر کچھ ضروری بات ہے تو آپ ابھی فون پر بھی کہہ سکتی ہیں۔ لیکن فرزانہ نے کہا کہ بات بہت زیادہ ضروری ہے اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر لینی چاہیے۔ محمود نے کہا ٹھیک ہے میں تمہیں پک کر لیتا ہوں پھر کسی اچھے ریسٹورنٹ میں دوپہر کا کھانا کھائیں گے اور جو بھی بات ہوگی وہ بھی کر لینا یہ کہہ کر محمود نے کال آف کر دی۔

 محمود سوچ رہا تھا کہ ایسی کون سی ضروری بات ہے کہ فرزانہ اسے فورا بلا رہی ہے وہ سمجھا شاید ہو سکتا ہے شادی کی تیاریوں کے حوالے سے انہیں کچھ رہنمائی چاہیے ہو لیکن پھر اس کے دل میں خیال آیا یہ بات تو دلدار بیگم بھی اس سے کہہ سکتی تھی۔ فرزانہ کے اس اچانک بلانے پر وہ ٹھٹک گیا کہ ہونا ہو کوئی اور بات ہے اس لیے وہ آفس سے نکلا اپنی گاڑی میں بیٹھا اور فرزانہ کی بتائی ہوئی جگہ پر اسے پک کر لیا اور شہر کے ایک اچھے ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے۔

تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ فرزانہ اس کے سامنے بیٹھی کسی گہری پریشانی میں مبتلا تھی۔ آخر محمود نے اس سے پوچھا: آپ نے مجھے یہاں ایک ضروری بات کرنے کے لیے بلایا تھا۔ مجھے لگتا ہے آپ کسی بات سے پریشان ہیں۔ جو بھی بات ہے آپ کھل کر مجھ سے کہہ سکتی ہیں۔ ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ہمیں ہر بات کھل کر کہہ لینی چاہیے اور یہی ہم دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔ فرزانہ نے محمود سے سب کچھ صاف صاف کہ دیا جسے سن کر محمود کے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔ وہ پریشانی کے عالم میں ہکا بکا فرزانہ کی جانب دیکھے جا رہا تھا اور ایک عجیب کشمکش اور مصیبت میں پڑھنے والا تھا۔ کیونکہ فرزانہ اسے ایک ایسے امتحان میں ڈالنے جا رہی تھی۔ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ فرزانہ نے محمود کو بتایا کہ وہ اس شادی سے ذرا بھی خوش نہیں ہے۔ وہ اپنے ایک یونیورسٹی کلاس فیلو سلمان سے بہت محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ بات وہ اپنی ماں کو نہیں بتا سکتی۔ کیونکہ اس کی ماں کبھی بھی سلمان کے ساتھ شادی پر راضی نہ ہوتی۔ فرزانہ اور سلمان کے تعلقات کچھ ایسے تھے کہ دلدار بیگم کو سلمان ذرا بھی پسند نہیں تھا۔ اس لیے وہ اس رشتے سے ناخوش تھی اور واضح الفاظ میں منع کر دیا تھا۔ وقتی طور پر فرزانہ خاموش ہو گئی تھی لیکن اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ شادی کرے گی تو سلمان کے ساتھ اس لیے وہ سلمان سے وہ سارے عہد و پیمان کر چکی تھی اور اب ان کو نبھانا چاہتی تھی۔ اس لیے محمود کے سامنے کھل کر وہ اپنے دل کی بات کہہ چکی تھی۔ اب محمود سے اصرار کر رہی تھی کہ وہ اس شادی سے انکار کر دے۔

 لیکن محمود ایک عجیب کشمکش میں مبتلا فرزانہ کی جانب آنکھیں پھاڑے ایک عجیب تجسس میں مبتلا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ زندگی اس کو اس طرح کے امتحان میں ڈالے گی۔ لیکن دوسری طرف اس کے دل میں ایک عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ جو دعا نے دعا کی تھی وہ پوری ہونے جا رہی تھی۔ محمود نے فرزانہ سے کہا دیکھیں میری زندگی کے تمام معاملات کے فیصلے چچا اور چچی کے سپرد ہیں۔ میں خود سے شادی کے انکار کا فیصلہ کر کے اپنے چچا اور چچی کو تکلیف میں مبتلا نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے تمہیں کوئی اور حل ڈھونڈنا ہوگا اپنی ماں سے بات کرو تو زیادہ اچھی بات ہے میں بھی دلدار بیگم کو سمجھا دوں گا اور سلمان کے حوالے سے ان کے دل میں جو پریشانی ہے یا جو ناپسندیدگی ہے اس کو بھی دور کرنا تمہاری اور سلمان کی ذمہ داری ہے۔ اس معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانا ہی عقلمندی ہوگی۔

ماحول اس قدر ناخوشگوار ہو چکا تھا کہ دونوں کا کھانا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن ٹیبل پر کھانا سرو ہو چکا تھا تو ہلکا سا کھانا کھایا اور اس کے بعد دونوں وہاں سے اٹھ گئے۔ راستے میں محمود نے کہا اس معاملے پہ ہم دونوں کو پہلے میرے چچا اور چچی سے بات کرنی چاہیے۔ ان کو اعتماد میں لینا چاہیے پھر ہمیں سب مل کر تمہاری ماں سے بات کرنی چاہیے کیونکہ زندگی جس نے گزارنی ہے اگر وہ خوش نہیں ہے تو پھر ایسی شادی کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے فرزانہ نے تھوڑی دیر سوچنے ہے کے بعد محمود کی بات سے اتفاق کیا اور محمود فرزانہ کو لے کر اپنے چچا اور چچی کے پاس چلا گیا۔

رضوان اور اس کی بیگم رخسانہ نے دوپہر کا کھانا گھر پہ کھایا۔ دعا نے بھی معمولی سا لنچ کیا اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ رخسانہ نے پریشانی کے عالم میں اپنے خاوند سے کہا: دیکھا آپ نے میری بیٹی نے کھانا بھی چھوڑ دیا ہے اگر اس نے اپنا خیال نہ رکھا تو دن بدن دبلی پتلی ہوتی جائے گی۔ مجھے تو دعا کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ہماری بیٹی کی شادی ختم ہو گئی اور بیچاری کا صدمے سے برا حال ہے۔ رضوان نے رخسانہ کی طرف دیکھا تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر بولا: بیگم تمہیں بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ دعا کی پریشانی اس کی شادی کا ختم ہونا نہیں ہے کیونکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ جب اس کی شادی طے ہوئی تب بھی وہ اس شادی سے خوش نہ تھی اور ختم ہونے پہ بھی اس کی حالت ویسی ہی ہے مطلب دعا کا اس کی شادی ہونے یا شادی ٹوٹنے کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر وہ پریشان ہے بھی صحیح تو محمود کی شادی کی وجہ سے پریشان ہے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ محمود کہیں اور شادی کرے اتنا کہہ کر رضوان خاموش ہو گیا رخسانہ نے کہا: تو پھر اب کیا کیا جائے؟ محمود کی شادی بھی ضروری ہے اور اب جب کہ دعا کی شادی ختم ہو چکی ہے اور اب اچانک سے محمود کے ساتھ دعا کی شادی کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ مجھے تو یہ خوف کھایے جا رہا ہے کہ یہ لڑکی جلد بازی میں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے۔

 رضوان نے کہا ہمیں اپنی بیٹی کو سمجھانا ہوگا اور اسے واپس اس پہلے والی زندگی میں لے کے آنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے ہم نے بہت سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا ہوگا کیونکہ ہم سب بہت نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر رضوان نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے رخسانہ سے کہا جیسے وہ کوئی خفیہ بات کہنا چاہ رہا ہو۔ آخر وہ رخسانہ سے مخاطب ہوا۔ ہم دونوں جانتے ہیں کہ محمود نے دعا کو اتنی محبت دی ہے اس کا اتنا خیال رکھا ہے کہ ہم بھی یہ سب کچھ نہیں کر پائے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ اٹیچ ہیں اور محمود بھی ہمارا دیکھا بھالا ہےاگر ہم محمود اور دعا کی شادی کر دیتے تو یہ دن نہیں دیکھنے پڑنے تھے رخسانہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے رضوان کو دیکھے جا رہی تھی اور بولی: رضوان آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ بھلا محمود اور دعا کی شادی کیسے ممکن ہے؟ محمود تو دعا سے بہت بڑے ہیں اور دونوں میں بہن بھائیوں والا پیار ہے یہ تو کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا۔

 رضوان نے گہری سانس لی اور کہا ہاں یہی بات تھی جو سوچ کے میں کبھی اپنے دل کی بات محمود سے نہیں کہہ سکا کہ شاید اس کو اچھا نہ لگتا لیکن جب اپنی بیٹی کی خوشیوں کا سوچتا ہوں تو مجھے محمود کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا اور ویسے بھی ہماری بیٹی صرف محمود کے ساتھ ہی خوش رہ سکتی ہے اور محمود ہی وہ واحد انسان ہے جو دعا کو ہر طرح کی خوشیاں بھی دے سکتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں ہم ایک قدم بھی شاید آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہاں اگر ہم دعا کی خوشیوں کا دیکھتے تو محمود سے بڑھ کے اس کا خیال رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں دعا اور محمود کے بارے میں یہ بات یقین سے بھی نہیں پتا اور اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ہمارے ان باتوں سے ان دونوں کے ذہنوں پر کیا اثر ہوگا۔

ابھی دونوں میاں بیوی یہ باتیں کر رہے تھے کہ محمود اور فرزانہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ محمود نے اپنے چچا اور چچی جان کو سلام کیا۔ فرزانہ نے بھی اس کی تقلید کی اور وہ دونوں آمنے سامنے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ رخسانہ نے مسکراتے ہوئے کہا: میں آپ دونوں کے لیے کھانا لگا دیتی ہوں ہم نے ابھی کھانا کھایا ہے۔ لیکن محمود نے کہا: چچی جان ہم کھانا کھا کے آ رہے ہیں۔ رضوان نے فرزانہ سے اس کی والدہ کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔ رخسانہ نے بھی فرزانہ سے خیر خیریت دریافت کی۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر محمود نے ہمت کر کے اصل مدعا بیان کیا اور جو باتیں فرزانہ اور محمود کے درمیان ہوئی تھی۔ وہ باتیں پھر سے رضوان اور رخسانہ کے سامنے دہرا دی گئی۔ رضوان اور رخسانہ کبھی ایک دوسرے کے منہ کی طرف اور کبھی فرزانہ اور محمود کی طرف دیکھتے۔ ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ آخر رخسانہ نے کہا: یہ اب کیسے ممکن ہے دلدار بیگم اگر سلمان کے رشتے سے راضی نہیں ہے تو پھر ہم انہیں کیسے سمجھا سکتے ہیں۔

 محمود نے کہا چچی جان شادی بیاہ کوئی کھیل تو نہیں ہے اس لیے سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھانا چاہیے۔ فرزانہ میرے ساتھ کیسے رہ سکتی ہے جبکہ یہ سلمان سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ تو اس میں زور و زبردستی کرنا سب کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ یعنی کتنی زندگیاں برباد ہو سکتی ہیں۔ رضوان نے گہری سانس لی اور سب سے مخاطب ہوا تم لوگ ٹھیک کہتے ہو ہمیں دلدار بیگم سے اس معاملے پر بات کرنی چاہیے اور معاملے کو سلجھا لینا چاہیے۔

ابھی وہ یہ باتیں کر رہے تھے کہ دعا بھی اپنے کمرے سے باہر آگئی۔ شاید اس نے محمود کی آواز سن لی تھی۔ اس لیے وہ اپنی ماں کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ دعا نے محمود اور فرزانہ کو ساتھ بیٹھے دیکھا تو غضیلی نگاہوں سے محمود کی جانب دیکھا اور جیسے شکایت کر رہی ہو۔ سب لوگ خاموش تھے کہ رضوان نے کہا اب کیا ارادہ ہے؟ ہمیں دلدار بیگم کے پاس چلنا چاہیے یا کچھ وقت انتظار کرنا چاہیے؟ محمود نے کہا چچا جان جتنی جلدی ہو سکے ہمیں اس معاملے کو سلجھا لینا چاہیے۔ جتنا انتظار کریں گے یا پھر دیر کریں گے تو معاملہ بگڑتا جائے گا۔ کوشش کرتے ہیں آج ہی اس معاملے کو سلجھا لیتے ہیں۔

 فرزانہ جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی ہوئی تھی بولی: اگر آج ہی بلکہ اسی وقت آپ لوگ میرے ساتھ میرے گھر چل کے میری والدہ کو سمجھا دیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔ رضوان اور رخسانہ نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور محمود اور فرزانہ کی بات سے متفق ہو گئے ہیں اور جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ دعا ان تمام باتوں سے بے خبر تھی وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید یہ سب لوگ دلدار بیگم کے پاس محمود کی شادی کی تاریخ لینے جا رہے ہیں۔ وہ اور ناراض ہو گئی اور گھور گھور کر محمود اور فرزانہ کو دیکھنے لگی۔ دعا کو غصہ بھی آ رہا تھا۔ کیونکہ محمود اسے اگنور کر رہا تھا۔ دعا کسی بھی صورت محمود کو کسی اور کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی تھی رضوان نے کہا: چلو پھر چلتے ہیں نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاملے کو آج ہی سلجھا لیتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئے۔ رخسانہ نے دعا سے کہا : بیٹا تم گھر میں رہنا۔ ہم ایک دو گھنٹوں تک واپس آ جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ شام سے پہلے لوٹ آئیں۔ یہ کہہ کر وہ چاروں گھر سے باہر آگئے۔

 دعا کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ ایسے جیسے اس کی زندگی لمحہ بہ لمحہ ختم ہو رہی ہے۔ اس کا دل بیٹھے جا رہا تھا۔ وہ بار بار محمود اور فرزانہ کی شادی کا سوچ کر پریشان ہو رہی تھی ۔اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ اس گھبراہٹ کے عالم میں اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ محمود سے دور ہونے کا ڈر اسے کھائے جا رہا تھا اچانک اس کے دل میں کیا سوجھی کہ وہ واش روم میں گئی۔ وضو کیا اور قران مجید اٹھا کر سینے سے لگا کر بیٹھ گئی۔ اس کے دل کو کسی صورت بھی سکون نہیں تھا وہ آنکھیں بند کیے آنسو بہائے جا رہی تھی اور اپنے رب سے اپنے سکون کے لیے دعا مانگ رہی تھی۔ وہ التجا کر رہی تھی۔ "اے میرے اللہ تو میرے دل کا حال بہتر جانتا ہے اور تو ہی میری مشکل حل کرنے والا ہے۔ میں جس مشکل میں جس عذاب میں ہوں تو بہتر جانتا ہے۔ میں محمود کے بغیر نہیں رہ سکتی جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ میں نے انہیں اپنے پاس دیکھا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کی ہر خواہش اپنی زندگی کی ہر خوشی ان کی ذات سے لی ہے۔ وہ میرے لیے سب سے بڑھ کر ہیں۔ ان کا ہونا ہی میری زندگی ہے۔ ان سے دور رہ کر میں ایک پل بھی نہیں رہ پاؤں گی۔ اے میرے اللہ میرے لیے آسانیاں فرما یا تو مجھے اس درد سے نجات دے دے یا پھر اس درد سے نجات دینے والا دے دے۔" اتنا کہنے کے بعد دعا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور اپنے بستر پر دراز ہو گئی قران مجید ابھی بھی اس کی سینے سے لگا ہوا تھا اب اسے سکون محسوس ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کی آنکھیں بند ہونے لگی اور نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
٭٭٭
کافی دیر کی بحث کے بعد آخر کار دلدار بیگم نے ہتھیار ڈال دیے۔ فرزانہ اپنے کمرے سے تمام باتیں سن رہی تھی۔ اس کا دل خوشی سے اچھل پڑا۔ وہ جسے چاہتی تھی وہ اسے مل رہا تھا۔ دوسری جانب محمود بھی اپنے دل میں خوشی کا ٹھاٹھے مارتا سمندر محسوس کر رہا تھا۔ رضوان نے دلدار بیگم کو یقین دلایا کہ وہ فرزانہ کی شادی اور اس کے تمام تر اخراجات خود اٹھائیں گے اور اپنے بیٹی کی طرح اسے عزت سے رخصت کریں گے۔ رخسانہ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور بولی:  فرزانہ بھی ہماری بیٹی جیسی ہے ہمیں بھی اس کی خوشیاں عزیز ہیں اس لیے ہمیں اولاد کی خوشیوں کو مدنظر رکھنا چاہیے اولاد کی خوشی ہی اصل میں والدین کی خوشی ہے۔محمود سر جھکائے بیٹھا تھا۔ رضوان نے محمود کی جانب دیکھا تو اس کا دل تڑپ گیا وہ جانتا تھا کہ محمود جیسا اچھا لڑکا اور فرمانبردار لڑکا شاید پوری دنیا میں نہیں ہوگا۔ وہ ہر تکلیف سہ کر بھی خاموش رہتا ہے اور جانے کتنی قربانیاں دے چکا ہے اپنی خوشیاں قربان کر چکا ہے۔ وہ بھی صرف دوسروں کی خوشیوں کے لیے رضوان کا دل بھر آیا لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکا۔

شام سے ذرا پہلے وہ تمام لوگ اپنے گھر واپس آگئے۔ اب معاملہ یہ تھا کہ محمود کا کیا بنے گا۔ فرزانہ کی شادی کی ذمہ داریاں بھی انہوں نے اٹھانی تھی اور اس بات کی حامی دونوں میاں بیوی بھر چکے تھے۔ تینوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے سر جوڑے اسی معاملے پر غور کر رہے تھے کہ دعا بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور براہ راست محمود سے مخاطب ہوئی۔ "مجھے آپ کے ساتھ باہر جانا ہے کتنے دن ہو گئے ہیں آپ مجھے کہیں بھی گھمانے نہیں لے گئے۔ میں سارا دن گھر میں بور ہوتی رہتی ہوں۔ آج رات کا کھانا میں آپ کے ساتھ باہر کہیں کھاؤں گی۔" اس سے پہلے کہ محمود جواب دیتا۔ دعا کے والد رضوان نے کہا: اگر ایسا ہے تو پھر آج رات کا کھانا ہم سب لوگ باہر کھائیں گے۔ لیکن دعا نے کہا: نہیں میں اور محمود بس ہم دونوں ہی باہر جا کر کھانا کھائیں گے۔ رخسانہ نے کہا: کیوں بھئی ہم ساتھ کیوں نہیں جا سکتے؟ دعا نے کہا: بس مجھے محمود کے ساتھ ہی جانا ہے اور ہم دونوں اکیلے ہی جائیں گے۔ مجھے محمود سے ڈھیر ساری باتیں کرنی ہیں۔ دونوں میاں بیوی خاموش ہو گئے۔ وہ سمجھ سکتے تھے کہ دعا کے لیے محمود کتنا ضروری ہے۔

اتنے میں محمود نے کہا: دعا تمہیں معلوم ہے کہ فرزانہ کی شادی مجھ سے نہیں ہو رہی بلکہ سلمان سے ہو رہی ہے۔ جس سے وہ محبت کرتی ہے اور ہم ابھی دلدار بیگم کے پاس سے ہی آ رہے ہیں۔ اچانک سے اتنی بڑی خبر سن کر دعا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔ اسی یقین نہیں ہو رہا تھا ایسے لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے تھوڑی دیر تک کے لیے تو وہ کچھ نہ کہہ سکی پھر حیرانگی سے اپنے ماں باپ کی جانب دیکھا تو انہوں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا۔ دونوں میاں بیوی اپنی بیٹی کے چہرے پر خوشیوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دیکھ رہے تھے۔ انہیں بھی اپنی بیٹی کی خوشیاں عزیز تھیں۔ آخر اس کے بارے میں بھی انہوں نے فیصلہ کرنا تھا اور یہی وہ وقت تھا کہ اپنی بیٹی کے لیے وہ بہتر فیصلہ کر سکتے تھے۔ 

 اب ساری باتیں ایک طرف رکھ کے زندگی کی سب سے ضروری بات کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا آخر رضوان نے خاموشی توڑی اور محمود سے مخاطب ہوا محمود میں تم سے ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس بات کا تم کیا مطلب لو گے یا یہ بات تم پر کس طرح اثر انداز ہوگی۔ لیکن آج میں دعا اور تمہارے سامنے یہ بات کھل کر کہنا چاہتا ہوں اور اس پر تم دونوں نے سوچنا بھی ہے اور اگر گنجائش نکل سکتی ہے تو ضرور بتانا۔ محمود کا دل دھک دھک کر رہا تھا وہ اپنے اور دعا کے حوالے سےچچا رضوان کے منہ سے کچھ ایسی بات سننے والا تھا جو ہمیشہ سے سننا چاہتا تھا۔ رضوان نے کہا بیٹا ہم اپنی بیٹی کو مزید امتحانات میں نہیں ڈال سکتے۔ ہمیں اپنی بیٹی کی خوشیاں عزیز ہیں اور یہ خوشیاں صرف تم ہی دے سکتے ہو تو میری خواہش ہے کہ اگر تم ہماری بیٹی دعا کا ہاتھ تھام لو۔ تو ہمیں بڑی خوشی ہوگی اور ہم سب جس تکلیف میں مبتلا ہیں ہو سکتا ہے اس تکلیف سے بھی ہمیں چھٹکارا مل جائے۔ 

محمود اور دعا اپنے دلوں میں اٹھنے والی خوشی کو اپنے اندر چھپائے بیٹھے تھے اور ان کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ آخر وہ بات جس کا وہ سالوں سے انتظار کر رہا تھا۔ اس کے چچا رضوان اپنی زبان پر لے آئے تھے اور اگر یہی بات محمود کرتا تو ہو سکتا ہے شرم اور ندامت سے اس کا سر جھکا رہتا۔ لیکن اس کے چچا جان نے یہ بات کہہ کر اس کے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ اتار دیا تھا۔ رخسانہ نے کہا: محمود بیٹا تم ہمیں بہت عزیز ہو اور ہمارے بیٹوں جیسے ہو ہم نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کے لیا ہے اور اب صرف تمہاری رضامندی درکار ہے اس کے بعد ہم اپنے بیٹوں سے بات کریں گے اور انہیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ محمود کا سر جھکا ہوا تھا وہ وہاں سے اٹھا اور اپنے چچا جان کے قدموں میں بیٹھ گیا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ۔ آنسوؤں کا بھی ایسا سمندر جو نہ تھمنے والا تھا۔

 دعا نے پہلی دفعہ محمود کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ وہ بھی اٹھی اور اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ رضوان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور رب سے کہا اللہ پاک ایسی فرمانبردار اولاد کے نصیب اچھے کرے۔ رضوان نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیا۔ رخسانہ بھی ان کے پاس آگئی اور ایک بہت بڑا بوجھ جو سب اپنے دل میں لیے پھرتے تھے۔ اللہ کے خاص کرم سے وہ بوجھ ان کے دلوں سے اتر چکا تھا۔ محمود نے آنسو بھرا چہرہ اوپر اٹھایا اور اپنے چچا جان سے مخاطب ہوا چچا جان میری یہ زندگی آپ کی امانت ہے۔ آپ میرے لیے سب کچھ ہیں اور آپ کا ہر فیصلہ مجھے منظور ہے۔ لیکن ایک بات مجھے بہت پریشان کیے جا رہی ہے کہ دنیا والے اس رشتے کو کیا نام دیں گے؟ رخسانہ نے کہا ہمیں صرف اپنے بیٹی اور محمود تمہاری خوشیاں عزیز ہیں۔ اگر تم ہماری خوشی میں خوش ہو تو ہمیں زمانے کی باتوں سے کیا لینا۔ زمانے والے چار دن باتیں کریں گے پھر خاموشوں کے بیٹھ جائیں گے۔ اب رضوان نے اپنی بیٹی کی جانب دیکھا اور پوچھا: تو دعا بیٹی اب تم کیا کہتی ہو؟ تو کیا جو فیصلہ میں نے تیرے لیے کیا ہے کیا اس پہ تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے؟ دعا نے اپنے باپ کا ہاتھ تھام لیا اور چوم کر اپنی انکھوں سے لگا لیا اور بولی ابا جان مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہے اور بڑی خوشی بھی ہے کہ آپ نے میرے لیے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو میری زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔

اس رات اس گھر میں خوشیوں کی برسات ہو رہی تھی۔ ہر چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا اور محمود اور دعا کے دل خوشوں سے بھر چکے تھے۔ محمود کی دلی مراد پوری ہو چکی تھی ۔اس کے دل میں دعا کے لیے جتنی محبت تھی اور اتنا عرصہ اس نے اس محبت کو اپنے دل میں چھپا کے جو صبر کیا۔ آج اسے اس صبر کا صلہ مل چکا تھا۔ دعا بھی بہت خوش دکھائی دے رہی تھی کہ اب محمود ہمیشہ اس کے پاس رہیں گے اور وہ دونوں پھر سے اپنی زندگی میں خوشیاں بھر لیں گے۔ سب نے باہر جا کر کھانے کا پروگرام بنایا اور رات گئے تک کھانا کھانے کے بعد باہر گھومتے پھرتے رہے اور واپس لوٹ ائے۔

دس دن کے بعد فرزانہ کی شادی سلمان سے کر دی گئی اور اس شادی میں رضوان اس کی بیگم محمود اور دعا نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ فرزانہ سلمان کے ساتھ رخصت ہو کر اس کے گھر چلی گئی اور ٹھیک دو دن کے بعد دعا کو محمود کے نکاح میں دے دیا گیا اور گھر کی بات گھر میں ہی رہ گئی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دعا اب محمود کو محمود بھیا کہے گی؟ ہو سکتا ہے وہ کچھ دن ایسا ہی کہے لیکن اب محمود اس کا مجازی خدا ہے۔ تو اللہ جسے چاہے جس کے لیے چاہے دل میں محبت پیدا کر دے اور جس کو چاہے جس سے ملا دے یہ سب نصیب اور قسمت کے کھیل 
ہیں جن کی ڈور صرف اللہ کے پاس ہے۔
(ختم شد)
Reactions