اک محبت کی کہانی

Urdu Font stories 26

میرے ماں باپ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ کیونکہ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ میرے ابو کا ارادہ تھا کہ وہ میرا بیاہ سلمان سے کریں گے، یہ بات بچپن سے میرے کان میں پڑ چکی تھی۔ تبھی باشعور ہوئی تو دل میں سلمان کے خیال کو بسا لی۔ا قسمت کی ستم ظریفی کہ انہی دنوں جب میری منگنی کی رسم کرنے سلمان کے والدین ہمارے گھر آنے والے تھے۔ والدہ ایک حادثے میں چل بسیں۔ 
 
 میں ماں باپ کی اکلوتی کبھی پل بھر ان سے جدا نہ ہوئی تھی کہ ایسا دن بھی دیکھنا پڑ گیا۔ والد بیچارے پریشان تھے کہ گھر کی ویرانی کو روئے یا بیٹی کی پاسبانی کریں۔ ان کی ملازمت ایسی تھی کہ دوسرے شہر ڈیوٹی لگ جاتی تو تین چار ماہ گھر سے دور رہنا پڑ جاتا۔ ان دنوں کبھی خالہ اور کبھی نانی امی ہمارے پاس آ کر رہتی ابا کی یہی مجبوری تھی کہ میری خاطر دوبارہ گھر بسا لیا۔

نئی ماں آگئی۔ جیسی بھی تھی ان کے آ جانے سے میں تنہا تو نہ تھی ۔ ان دنوں میٹرک کا امتحان دے رہی تھی۔ والد نے دوسری شادی کی اور مجھ کو سوتیلی ماں کے ہاتھ میں سونپ دیا یہ کہہ کر کہ میری امانت ہے اور ہمارے گھر تھوڑے عرصے کی مہمان ہے۔ اس کا تم نے بہت خیال رکھنا ہے۔ میں تمہاری ساری کوتاہیاں برداشت کر لوں گا۔ مگر میری بیٹی کی دل آزاری کی تو برداشت نہیں کروں گا۔ نئی ماں میری چچی اور خاص طور پر سلمان کو تو بالکل بھی پسند نہ کرتی تھی۔ بہت جلد انہوں نے چچی سے بگاڑ پیدا کر لیا۔ جس پر چچا نے ان سے ذرا تلخ لہجے میں بات کی۔ ابا پر نویلی بیوی کا جادو چل چکا تھا۔ سو بھائیوں میں ناچاکی ہو گئی۔ دونوں نے آپس میں بات چیت بند کر دی۔ یوں سلمان کو بھی قدسیہ اماں نے گھر آنے سے روک دیا۔ گویا دونوں کو ہی ایک دوسرے سے ملنے سے روک دیا گیا۔
 
 میں اور سلمان چند دن بہت پریشان رہے۔ پھر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ۔میں نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ اب ہم دونوں اپنے اپنے کالج سے چھٹی کرتے اور باہر ہی ایک دوسرے سے ملاقات کر لیتے۔ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔

  ہمارا اور چچا کا گھر ساتھ تھا۔ سلمان اپنے گھر کی چھت پر بھری دوپہر کھڑا رہتا کہ میں انگن میں نکلوں تو وہ میرا دیدار کر لے لیکن ماں کی مجھ پر کڑی نگاہ رہتی وہ مجھ کو اکیلے چھت پر جانے نہ دیتی۔ ان کی سختی کے کارن سلمان کو اپنی تائی سے نفرت ہو گئی اور میں بھی قدسیہ اماں کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھنے لگی ایک روز قدسیہ امی کی خالہ فوت ہو گئیں اور بیٹھے بٹھائے ان کو گھر سے جانا پڑ گیا تب سلمان کو مجھ سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ سلمان کہنے لگا جب تایا شہر سے باہر کی ڈیوٹی پر ہوں تم چھت پر آ کر مجھ سے ملنا۔ قدسیہ اماں کو نیند کی گولیاں کھلا دینا۔ ہم مل کر سوچتے ہیں اور اس سانپ کو اپنے درمیان سے ہٹانے کی کوئی ترکیب کرتے ہیں۔ میں سمجھی کہ اس کی بات کا یہ مطلب ہے کہ کوئی تدبیر کر کے ہم اپنے والدین کو پھر سے صلح پر راضی کرتے ہیں۔

اب جب ابا ڈیوٹی پر رات کو گھر سے باہر ہوتے۔ میں سوتیلی ماں کو گہری نیند میں چھوڑکرآدھی رات کو چھت پر چلی جاتی۔  ہمارے گھروں میں ایک ہی عورت کام کرتی تھی جس کا نام زلیخا مائی تھا۔ اس کو سلمان نے روپے پیسے سے ارام کر کے میرا اور اپنا پیامبر بنا لیا تھا۔ جب کچھ کہنا ہوتا پرچے پر لکھ کر مائی زلیخا کو دے دیتا۔ وہ ہمارے گھر برتن دھونے آتی یہ پرچہ مجھ کو تھما دیتی۔ غرض اس طرح ہمارا رابطہ قائم تھا۔ 

سردیوں کا موسم شروع تھا اور چھت پر رات کو سردی زیادہ ہو گئی تھی۔ لہذا جب ابا کی ماہ دو ماہ کی ڈیوٹی دوسرے شہر ہوتی تو ہم قدسیہ اماں کو نیند کی گولیوں سے گہری نیند سلا کر بے فکری سے گھر میں ملاقاتیں کرتے۔ جب تک ماں چار گولیوں سے گہری نیند سوتی رہی ہماری ملاقاتیں اسی طرح ہوتی رہیں کچھ عرصہ بعد ان گولیوں نے اثر چھوڑ دیا۔ وہ ادھی رات کو اٹھ گئی یہ تو خیر ہوئی کہ ان پر نیند کا غلبہ تھا۔ وہ غسل خانے گئے اور پھر دوبارہ اپنے بستر پر آ کر سو گئیں۔  میں نے اگلی رات مقدار زیادہ کر دی۔ وہ دل کی مریضاں تھی۔ گولیوں کی اتنی مقدار کا نشہ برداشت نہ کر سکی اور رات کو کسی وقت ان کی حرکت قلب بند ہو گئی۔
 
 میں نے ان کی جان لینے کے ارادے سے ایسا نہ کیا تھا میں تو یہی سمجھی کہ گہری نیند سو رہی ہے کیا خبر تھی کہ ابدی نیند سو چکی ہے۔ اس روز رات بھر جاگنے کے باعث میری آنکھ بھی کافی دیر بعد کھلی۔ وہ بھی مجھ کو زلیخا نے جگایا بولی بی بی کیا ہوا ہے؟ 11 بج رہے ہیں اور اپ دونوں ماں بیٹی دن چڑھے سو رہی ہیں زلیخا سے کہا تم اج کام کی چھٹی کر لو۔ اماں جاگ گئی تو ان کے درد شروع ہو جائے گا۔ رات اچانک پتے میں درد اٹھا۔ رات بھر خود سوئی نہ مجھے سونے دیا مشکل سے آنکھ لگی ہے۔ ان کی ایسا کرو تم کل آنا۔ پرچہ بھی لکھ کر زلیخا کو دیا کہ اسے دے دینا وہ پرچہ مٹھی میں دبا کر چلی گئی۔

پرچے میں میں نے لکھا تھا کل میں نے اماں کو گہری نیند سلانے کے واسطے جو گولیوں کی زیادہ مقدار دی تھی۔ وہ تو اب تک بے ہوش پڑی ہیں تم آکر ان کو دیکھو تو ذرا۔  میں گھر میں اکیلی تھی وہ آگیا۔ ہم اماں کے پاس گئے۔ اس نے ان کو ہلا جلا کر دیکھا۔ ناک پر ہاتھ رکھا نبض دیکھی ۔کہا کچھ نہیں گولیوں کے نشے کا اثر ہے تھوڑا سا اور دیکھ لیتے ہیں دو چار گھنٹے بعد شاید ہوش آ جائے۔ بے وقوف ہو تم بھی زیادہ مقدار میں گولیاں دینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ مگر مجھ کو چین نہ آ رہا تھا۔  شام کو سلمان آیا اماں کو دیکھا۔ مجھ سے کہا کہ ابھی تک بے ہوش ہیں تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کو لے آتا ہوں۔ اس دوران کوئی آ کر اماں کا پوچھے تو کہنا کہ طبیعت خراب تھی سو رہی ہے۔
 
 رات 12 بجے تک وہ نہ آیا۔ میرا جی گھبرانے لگا۔ دوبارہ قدسیہ اماں کے پاس گئی پکارا ،ہلایا جلایا مگر وہ ہوتی تو اس جہاں میں تبھی جواب دیتی ۔ مجھ کو یقین ہو گیا کہ اماں مر گئی ہیں۔ میں رونے لگی۔ مگر منہ پر دوپٹہ رکھ کر دھیمی دھیمے کے آواز نہ ہو۔ رات کا ایک بجا تھا۔ تبھی کھٹکا ہوا۔ میرے کان تو در پر لگے ہوئے تھے سلمان کے انتظار میں اور خوف کے مارے برا حال تھا۔ دروازہ کھولا سلمان نے کہا تم کمرے میں چلی جاؤ اور اندر سے کنڈی لگا لو۔ جب تک میں نہ کہوں باہر مت آنا ڈاکٹر کو دکھا لوں میں اماں کو ہسپتال لے جاؤں گا۔ ساتھ میرے دوست ہیں ان کی گاڑی میں لے جانا ہے۔ تم سامنے مت آنا ان لوگوں کے۔  میں کمرے میں چلی گئی اندر سے کنڈی لگا لی۔ وہ دو دوستوں کو اندر لے آیا۔ ان کے پاس گدال تھی ۔ وہ اماں کے کمرے میں گئے۔ سب نے مل کر اس کو اٹھایا اور مکان کی پچھلی طرف کچے میں لے گئے۔ تجسس کے مارے مجھ سے رہا نہ گیا۔ در کھولا اور کچے میں جھانکا وہ صحن میں گدالوں سے گڑا کھود رہے تھے۔ سمجھ گئی کہ تن مردہ کو یہ گھر کے اندر ہی کچے میں گڑا کھود کر سپرد خاک کر رہے ہیں۔ اماں واقعی مر چکے ہیں ادھر ان کے ساتھ کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ بمشکل واپس کمرے تک آئی۔ جسم کانپ رہا تھا بستر پر گر کر بے ہوش ہو گئی۔

خدا جانے کب سلمان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس بھیانک کام کو انجام تک پہنچایا اور پھر وہ اور اس کے ساتھی صبح ہونے سے پہلے گھر سے نکل گئے۔ جاتے ہوئے وہ ہمارے گھر کے دروازے کی کنڈی بھی اندر سے لگا کر نہ گیا۔ خود ہماری چھت سے اپنی چھت پر اور پھر وہاں سے زینے طے کرتا اپنے گھر چلا گیا۔ صبح جب میری آنکھ کھلی خوف سے بستر سے نہ اٹھ سکی۔ نہ چار اٹھی پہلے اماں کے کمرے میں جھانکا اماں نہ تھی ان کا بستر خالی تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کو آدھی رات کو سلمان نے کچے کے صحن میں دفنا دیا تھا اور اوپر سے مٹی برابر کر دی تھی۔ میں اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔ یہ میری غلطی سے ہوا تھا۔ اچانک دروازے پر زلیخا مائی آگئی ۔ بولی کب سے دروازہ بجا رہی ہوں کوئی کھول کیوں نہیں رہا؟ کیا سو رہی تھی کیا؟ غسل خانے میں تھی اماں کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ رات کو ابا آگئے اور ان کو ہسپتال لے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
زلیخہ بی بی نے کہا تو تم گھر میں اکیلی کیسے رہو گی؟ اب تمہارے پاس کون ہے؟ ابا کہہ کر گئے تھے مائی زلیخاں سے کہنا کہ خالہ کے گھر جا کر ان کو تمہارے پاس بھیج دے گی۔ ٹھیک ہے بی بی فکر نہ کرو میں کام ختم کر کے چلی جاتی ہوں۔ میں نے ذلیخا بی بی سے کہا: آج کام نہ کرو بس تم جا کر میری خالہ کو بلا لاؤ۔ وہ چلی گئی اور سہ پہر کو خالہ کو لے کر واپس آگئی۔ بولی بیٹی میں قدسیہ کی بیماری کا سن کر پریشان ہو گئی ہوں۔ میں نے خا لہ کو جھوٹ بولا: کہ ابا اسے ساتھ لےگئے ہیں تاکہ ان کا آپریشن کروا سکیں۔ خالہ نے کہا: تم ایسا کرو میرے ساتھ گھر چل کر رہو. میں تمہاری چچی کے گھر جاتی ہوں پھر ہم گھر کو تالا لگا جاتے ہیں اور چابی ان کو دے جاتے ہیں۔
 
سلمان تو اگلے دن ہی شہر سے غائب ہو گیا۔ وہ دوسرے شہر اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا۔ جب ابا واپس آئے تو گھر پر تالا دیکھا۔ چچی کے گھر سے پتہ کیا تو جو انہیں بتایا گیا تھا وہ اس نے دہرا دیا۔ ابا ہم فکر مند ہو گئے۔ پہلے خالہ کے گھر آئے مجھ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کہا اور تمہاری اماں کدھر ہیں؟ میں نے جھوٹ بولا کہ ایک روز سو کر اٹھی تو ماں موجود نہ تھی۔ انتظار کیا کہ کہیں قریب گئی ہوں گی آ جائیں گی۔ دن بھر انتظار کرتی رہی۔ نہ پلٹی تو خالہ کو زلیخاں مائی کے ذریعے بلوایا۔ ان سے ماں کے آپریشن کا اس لیے کہہ دیا کہ گھر سے بغیر بتائے ماں کے چلے جانے سے کہیں لوگ غلط مطلب نہ لے لیں۔
مزید پڑھیں
 والد اور پریشان ہو گئے۔ قدسیہ اماں کے میکے گئے۔ انعام کو بلوا کر کچھ کچھ کی ان لوگوں کو تو کسی بات کا علم ہی نہ تھا۔ قدسیہ اماں ادھر کو گئی ہی نہ تھی۔ اب سوائے پولیس میں رپورٹ گمشدہ درج کرانے کے چارہ نہ تھا۔ پولیس نے گمشدہ اماں قدسیہ کے کیس کی تفشیش شروع کر دی۔ گھر میں آکر گھوم پھر کر سب جگہوں کا با غور معائنہ کیا۔ کچے میں ایک جگہ فرش پر ان کو مٹی بھربھری لگی۔ جیسے کسی نے یہ جگہ کھود کر پھر سے اس میں مٹی بھری ہو۔ سلمان کے ساتھیوں نے جلدی میں گڑھا کھودا لیکن بہت گہرا نہیں کھود سکے تھے۔ پولیس نے کھدائی کی تو تھوڑی سی گہرائی کے بعد اماں قدسیہ کی لاش ظاہر ہو گئی۔
 
 ابھی تفتیش جاری تھی کہ جہاں جا کر سلمان چھپا تھا اس دوست نے آ کر میرے والد سے رابطہ کیا اور ان کو بتا دیا کہ تمہارا بھتیجہ اپنی چچی کو اپ کے کچے صحن میں دفن کر آیا ہے۔ کیونکہ غلطی سے آپ کی بیٹی نے اس کو پتے کے درد کی دوا ایسی دے دی کہ وہ دوا کی تیزی نہ سہ سکی اور جان بحق ہو گئی۔ تبھی اپ کی بیٹی نے سلمان کو بلا کر ماجرہ بتایا۔ کیونکہ بچی ڈر گئی تھی۔ سلمان نے اس خوف سے کہ قتل کا الزام اس پر نہ آجائے۔ قدسیہ اماں کی لاش کو صحن میں دفن کرا دیا اور میرے پاس آگیا۔ وہ بہت پریشان ہے آپ کو تمام بات سے آگاہ کرنے کو اسی نے مجھ کو بھیجا ہے۔ آگے اپ کی مرضی جو کاروائی کرے۔
 
 ابا جانتے تھے کہ میں ماں قدسیہ کو قتل نہیں کر سکتی۔ غلط مقدار میں دوا ضرور دے دی ہوگی۔ باپ تو پھر باپ ہوتا ہے انہوں نے پولیس سے نہ تو میرا نام لیا اور نہ سلمان کا۔ البتہ اماں قدسیہ کو ہی گناہ گار ٹھہرا دیا گیا۔
 ان کے بھائی اور قریب رہنے والوں نے ان کو اور مجھ کو بچانے کی خاطر یہ گواہی دی کہ کبھی کبھار ان سے ملنے کوئی شخص ان کی شوہر کی غیر موجودگی میں آتا۔ تھا تب وہ لڑکی کو خالہ کے گھر بھجوا دیا کرتی تھی۔ ہم منہ سے خاندان کی عزت کی خاطر یہ معاملہ ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔ یہ سوچ کر ممکن ہے اس خاندان کے میکے سے کوئی رشتہ دار ملنے اتا ہو تو ہم تہمت نہ لگانا چاہتے تھے۔ غرض پولیس کی مطلوبہ تواضع کی جائے تو کوئی بھی کہانی بنائی جا سکتی ہے۔والد اور تایا نے اس کیس کی سنگینی کی خاطر رنجش ختم کر کے صلح کر لی کہ دونوں ہی اولادیں خطرے میں تھیں۔ قدرت نے میری شادی سلمان سے لکھی تھی۔ سو ہو گئی۔
 
 اس واقعے کو  20 سال چکے ہیں لیکن دل کا بوجھ ہے کہ ہلکا نہیں ہوتا۔ ہماری لاپرواہی سے قدسیہ اماں اس جہان سے گئی۔ جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے۔ میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے لیے سربسجود ہو جاتی ہوں۔
Reactions