سکے (افسانہ)

Urdu Afsanay


افسانہ: سکے
تحریر: شفا چودھری

میری آنکھ کھلی تو ہر سو تاریکی کا پہرا تھا۔
اف! یہاں کتنی وحشت ہے۔ کوئی مجھے یہاں سے نکالے ورنہ میرا دم گھٹ جائے گا۔ میں نے زور زور سے چلانا چاہا لیکن میری آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی۔ مجھے لگا جیسے میری زبان پر کسی نے بڑا سا تالہ لگا دیا ہو۔
میں نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری اور پیاس کی شدت سے مغلوب ہو کر پانی کی تلاش میں ادھر ادھر ہاتھ مارا تو میرا ہاتھ کسی سخت سی شے سے ٹکرایا۔

اوہ! یہ تو سیمنٹ کی بنی ہوئی کوئی کھردری سی دیوار لگتی ہے۔ میں نے سوچتے ہوئے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔ میں نے اٹھ کر کھڑا ہونا چاہا تو میرا سر زور سے چھت سے ٹکرا گیا۔
"میرے خدا!" میں اپنا سر پکڑے واپس نیچے بیٹھ گیا۔

"کیا میرا قد اتنا لمبا ہو گیا ہے؟" میں نے اپنے جسم کو ٹٹولا۔ میرے اعضاء مکمل تھے لیکن مجھے یوں لگا کہ میرا قد گھٹ کر ایک پانچ سالہ بچے جتنا ہو چکا ہے۔ مجھے بچپن میں سنی زیر زمین آباد بونوں کی عجیب و غریب داستانیں یاد آنے لگیں۔
تو کیا میں بھی بونا ہو چکا ہوں؟ اگر میں بونا ہو چکا ہوں تو پھر میرا سر چھت سے کیوں ٹکرا رہا ہے؟ کیا دنیا مجھ سے کہیں زیادہ بونی ہو چکی ہے؟ شاید ہاں یا شاید نہیں! خود سے سوال و جواب کرتے ہوئے نجانے کتنا وقت بیت گیا تھا۔ شاید میں صدیوں سے انہی سوالوں کی بھول بھلیوں میں سوختہ پا سرگرداں تھا۔
کیا مجھے مر جانا چاہیے؟ میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا۔
مجھے اس وقت اپنی موت ہی واحد غمگسار دکھ رہی تھی جو مجھے اس مصیبت سے نجات دلا سکتی تھی۔ میری نگاہوں کے سامنے سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈ میں بستروں پر پڑے نڈھال، زرد، غم زدہ اور بیمار چہرے لہرانے لگے جن کی آنکھیں موت کے انتظار میں چھت سے جا لگتی تھیں۔

نجانے وہ کتنی اذیت سے دوچار ہوتے ہوں گے۔ مہنگی دوائیاں، مختلف ٹیسٹوں کی طویل فہرست اور جلاد نما ڈاکٹروں کے ہوشربا اخراجات کے بل جو ان کے پیاروں کے چہروں پر مایوسی کا رنگ انڈیل جاتے تھے پھر ایک طوفان اٹھتا تھا اور سب کے چہروں پر سکون امڈ آتا تھا۔ میرے اندر پھیلی مایوسی کے سیاہ بادلوں نے میرے چہرے کو بھی ڈھانپ لیا ہو گا تبھی تو میں سکون کی تلاش میں موت کی تمنا کر بیٹھا تھا۔
ہاں ! مجھے بھی سکون مل جائے گا لیکن میں نہ مرا تو؟ یہاں زندہ رہنا تو موت سے بھی زیادہ کرب ناک ہو گا۔ میرے ذہن کے پردے پر مچلتے سوال نے میرے دل و دماغ میں کھلبلی مچا دی۔

لوگ زندگی کی تلاش میں دیوانے ہو جاتے ہیں اور میں موت کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میں اپنی اس خواہش پر خود کو ملامت بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے زندگی عزیز تھی لیکن اس وقت موت کا طوق اپنے ہاتھوں سے پہننا لازم تھا۔
اچانک مجھے اپنے قریب آہٹ محسوس ہوئی۔ میں سمٹ کر بیٹھ گیا۔ کیا یہ موت کی چاپ ہے؟ مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور میرا وجود پسینے میں نہا گیا۔
کیا مجھے مرنا ہو گا؟
لیکن میری بیوی؟

میری چند ماہ قبل ہی تو شادی ہوئی ہے۔ وہ کیا کرے گی؟
میں نے سوچا اور میری آنکھوں کے سامنے اپنی بیوی کا سیاہ چادر میں لپٹا سراپا لہرا گیا۔
اسے سیاہ رنگ پسند نہیں اور اب تاعمر وہ اسی لباس میں زندگی بتائے گی۔ میں نے سوچا اور خیالوں ہی خیالوں میں کسی کو اس کے سر سے سرخ دوپٹہ کھینچ کر سیاہ چادر اوڑھاتے دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے لپکتی اذیت برچھی بن کر میرے دل میں چھید کر گئی۔
میری نگاہوں کے سامنے وہ چپ چاپ سیاہ ماتمی لباس زیب تن کیے بیٹھی تھی۔ وہ خاموش تھی لیکن اس کی آنکھیں بین کر رہی تھیں۔ اسے سیاہ رنگ سے نفرت تھی۔ اس کی آنکھوں کے بین میرے دل کو چیرے جا رہے تھے۔
میرا جی چاہا وہ اپنے سر سے سیاہ چادر اتار کر پھر سے سرخ آنچل اوڑھ لے۔ میں نے اس کی حسرت زدہ آنکھوں سے لپٹے ادھورے خواب دیکھے۔ وہ بے چینی سے ذرا سی جنبش کرتی تو گھر کی کسی بزرگ خاتون کی گھرکی اسے پھر سے ساکت رہنے پر مجبور کر دیتی۔

"تمہیں یہیں بیٹھنا ہو گا۔" کسی نے کہا تو وہ ہتھیلیوں میں چہرہ چھپا کر سسک اٹھی۔
اس کی آنکھوں میں دم توڑتی تمناؤں کا عکس دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھا لیکن میں رو نہیں سکتا تھا کیوں کہ میں مرد تھا اور میرے بزرگوں نے مجھے یہی سکھایا تھا کہ مرد مضبوط ہوتا ہے اور عورت کمزور! اسی لیے تو روتی ہے۔
"کیا عورت کمزور ہوتی ہے؟" ایک اور سوال میرا منتظر تھا۔
"شاید نہیں!" میں نے سوچا تو مجھے اپنی ماں یاد آ گئی۔

عورت کمزور ہوتی تو میری ماں بیوگی کا طویل عرصہ تنہا کیسے کاٹ لیتی؟
جب شادی کے تیسرے برس میرے بابا پردیس میں حادثے کا شکار ہو کر اسے سیاہ چادر دان کر گئے تھے۔
اگر وہ کمزور ہوتی تو اس کالی چادر کے ساتھ مجھے پال پوس کر جوان کیسے کر پاتی؟
اس کے سر سے بھی سرخ آنچل اسی طرح بیدردی سے کھینچا گیا ہو گا اور پھر آغوش سے لپٹا میرا ننھا وجود اسے ہمیشہ کے لیے ساکت کر گیا ہو گا۔ کیا پتہ اس نے بھی کبھی مقام بدلنا چاہا ہو یا یہ آرزو ہی کی ہو لیکن وہ کچھ بھی نہ کر پائی ہو گی۔ سیاہ چادر کا پہرا نہایت سخت تھا۔

ہائے میری ماں! وہ جب مری تھی تو اس کی پارسائی کے قصیدے پڑھنے والوں نے میرے چچا اور دادی کے سر فخر سے بلند کر دیے تھے۔
'تمہاری ماں بہت بہادر عورت تھی۔" کسی نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا تھا تو احساس تفاخر سے میرا کشادہ سینہ کچھ اور چوڑا ہو گیا تھا لیکن اس تفاخر کی بنیاد میں کتنے خاموش آنسو، تنہائی کے کتنے خوف دفن تھے یہ دیکھنے کی شاید کسی کو فرصت نہیں تھی۔
"سکے ڈھونڈو! سکے ڈھونڈو! اگر یہاں سے نکلنا چاہتے ہو تو سکے تلاش کرو۔"
میرے قریب سے آواز ابھری تو میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں سوائے اندھیرے کے کچھ نہ تھا.
خاموشی اور تاریکی میں گونجتی اس پراسرار آواز نے مجھ پر ہیبت طاری کر دی تھی لیکن میں نے ہمت جمع کی اور پوری قوت سے چلا اٹھا۔
"کک کون؟" میرے حلق سے آواز برآمد ہوئی تو مجھے حیرت انگیز مسرت نے آ گھیرا۔ میری آواز لوٹی تو امید نے میرا دامن تھاما۔

"مجھے چھوڑو! تم سکے تلاش کرو۔"
آواز اب کچھ ہلکی ہو چکی تھی۔ یعنی وہ جو کوئی بھی تھا مجھے اس وحشت ناک تنہائی کے حوالے کر کے لوٹ رہا تھا۔
"لیکن تم کہاں جا رہے ہو؟ خدا کے لیے رک جاؤ ورنہ میری سانسیں بھی رک جائیں گی۔" میرا گلا رندھ گیا۔
"ابھی نہیں! پہلے سکے تلاش کرو۔"
"کون سے سکے؟" میں چلایا۔ کچھ پل سرک گئے لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ وہ شاید جا چکا تھا لیکن وہ تھا کون اور کن سکوں کی بات کر رہا تھا؟ سوچتے سوچتے میرا دماغ شل ہونے لگا۔
"میں کبھی بھی یہاں سے نکل نہیں پاؤں گا۔ میری قسمت میں اس اندھیرے میں ہی رہنا لکھا ہے شاید!" امید نے دامن چھوڑا۔
میں تھک کر دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گیا۔ میرے حلق میں پیاس سے کانٹے اگ آئے تھے لیکن یہاں پانی کا ملنا ممکن ہی نہیں تھا۔
مجھے یاد آیا ۔ میری بیوی اندھیرے سے خوف کھاتی تھی اور ہمیشہ زیرو کا بلب جلا کر سوتی تھی۔ میں اس کی اس عادت سے اکثر چڑ جاتا تھا۔
"مجھے ہمیشہ سے مکمل اندھیرے میں سونے کی عادت ہے یہ زیرو کا بلب میں تمہاری وجہ سے برداشت کرتا ہوں۔" میں جتلاتا تو وہ ہنس دیتی۔
"مجھے معلوم ہے آپ کو اندھیرا پسند ہے۔" وہ معنی خیز انداز میں کہہ کر کروٹ بدل کر سو جاتی۔
میں حیران رہ جاتا جب کچھ ہی دیر میں اس کے ہلکے ہلکے سے خراٹے کمرے میں گونجنے لگتے تھے۔
نجانے یہ کیسے اتنی جلدی سو جاتی ہے؟ میں حیرت سے اس کی پشت کو تکے جاتا۔
مجھے رات جلد سونے کی عادت نہیں تھی یا مجھے نیند ہی نہیں آتی تھی۔ میں کبھی یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا۔
مجھے سونا چاہیے۔ شاید دوبارہ جاگوں تو منظر بدل چکا ہو اور میں پھر سے اپنے تین منزلہ گھر کے لان میں بیٹھا چائے پی رہا ہوں۔ میں نے آنکھیں بند کیں تو میری پلکوں کی دہلیز پر بیتے پلوں کی ساعتیں دستک دینے لگیں۔
"راجو بابا! یہ آپ کا مہینے بھر کا راشن رکھا ہے۔ یاد سے لیتے جائیے گا۔" وہ باورچی خانے میں ملازم کو ہدایت جاری کر رہی تھی۔

"بیگم صاحبہ اگر کچھ پل ہمیں بھی عنایت ہو جاتے تو؟" ملازم باہر نکلا تو میں نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے بے داغ چہرے کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیا۔
"آپ بھی نا! بندہ جگہ ہی دیکھ لیتا ہے۔" اس نے لجاتے ہوئے کہا۔
"ہاہاہا! یار! تم نے کبھی ناولز میں نہیں پڑھا، ہائے! باورچی خانے میں کام میں مصروف پسینے سے بھیگی ہوئی بیوی کو چپکے چپکے دیکھنا کس قدر رومانوی ہے؟" میں اس کی ٹھوڑی کو چھو کر کہا تو وہ میرے سر پر ہلکی سی چپت رسید کرتے ہوۓ کام میں مصروف ہو گئی۔

"ابھی ماسی اور ڈرائیور کا تھیلا بھی بنانا ہے۔ آپ کمرے میں چلیے میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔" اس نے اپنے گلابی آنچل کو ایک ادا سے لہرایا لیکن میرا غصہ کم نہ ہو پایا اور میں پاؤں پٹختے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ اس کے چہرے پر پھیلی جاں فزا مسکراہٹ کو پیروں تلے روند کر میری انا کی تسکین نہ ہوئی تو میں نے باقی کا غصہ دروازے کو زور سے بند کر کے اتارا تھا۔ چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنانا اور پھر زور زور سے چلانا میری فطرت میں شامل تھا اور وہ اس کا نشانہ آئے روز بنتی رہتی تھی۔
کاش میں نے اسے تکلیف نہ دی ہوتی۔ مجھے پچھتاوا تھا لیکن اب مداوا ممکن نہ تھا۔
اف! اگر میں مر گیا تو کیا اسے تاعمر سیاہ رنگ پہننا پڑے گا؟ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔
نہیں! مجھے جینا ہو گا.
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اس روایت سے انحراف کر دے؟
اور میں مر بھی جاؤں تو وہ۔۔۔
لیکن روایات سے بغاوت کرنے والوں کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ مجھے بلقیس آپا کا تیزاب سے جھلسا چہرا یاد آیا تو مجھے جھرجھری سی آ گئی۔
سیاہ رنگ سے بغاوت کی تمنا کی سزا میں ان کا چہرہ تیزاب سے جلا کر خاکستر کر دیا گیا تھا اور مجرم دندناتے پھر رہے تھے ۔
"پھر میں کیا کروں؟" میری خود کلامی سرگوشی میں ڈھلی۔
"سکے ڈھونڈو!" وہی آواز ایک بار پھر سے میرے بہت قریب سے ابھری۔
"کیسے سکے؟ اور اس اندھیرے میں سکوں کی تلاش بے کار ہے۔" میرا لہجہ تلخ ہوا۔
" تمہارے اردگرد ہیں۔"

" میرے اردگرد ؟"
"ہاں! اور تم عنقریب ڈھونڈ لو گے۔"
میں نے اپنے آس پاس ہاتھ مارے تو کھردرے فرش کے سوا وہاں کچھ نہیں تھا ۔
"تم عجیب باتیں کرتے ہو۔ مجھے تمہاری باتوں کی سمجھ نہیں آ رہی۔" میں جھنجھلا گیا۔
"جلد آ جائے گی۔" وہ ہنسا۔
"تم نے یہ جو سکوں کی رٹ لگا رکھی ہے۔ انہیں ڈھونڈنے میں میری مدد کرو تو شاید ڈھونڈ پاؤں؟"
"مدد کر تو رہا ہوں اور مدد کرنا کسے کہتے ہیں؟" اس کا لہجہ سخت ہوا۔
"سکے پانے کے لیے پہلی چیز انہیں دل سے تلاش کرنا ہے۔" وہ ہولے سے میرے کان کے قریب گنگنایا۔
"لیکن اس اندھیرے میں سکے تلاش کرنا کیسے ممکن ہے؟" مجھے غصہ آ رہا تھا لیکن میں نے حتی الامکان اپنا لہجہ نرم رکھنے کی کوشش کی۔
"اپنی آواز کو بدلو۔"
"آواز کو؟"
"ہاں! لہجے کی آنچ ذرا دھیمی کرو۔"
اس کی بات سن کر میں نے گہری سانس لے کر تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے چھوڑے۔
"اچھا!" میرا لہجہ نرم ہوا۔
چھن! آواز آئی تو میری جسم و جاں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔
"کچھ محسوس ہوا؟"
"ہاں! سکہ گرا۔"
"اٹھا لو۔" وہ بولا تو میں نے اپنے اردگرد کی جگہ کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ ذرا سی کوشش کے بعد سکہ میرے ہاتھ لگا تو میں خوشی سے چلا اٹھا۔
"میں اب گھر جا سکتا ہوں؟"
"ابھی نہیں! بہت سے سکے جمع ہوں گے تو روشنی ہو گی اور تم باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر سکو گے۔"
"باقی کے سکے کب ملیں گے؟" میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"یہ سکہ باقی کے سکوں کو جلد کھینچ لے گا۔"
"یعنی مزید انتظار کرنا ہو گا؟" میں ذرا سا مایوس ہوا۔
"زیادہ نہیں پہلے والا سکہ باقی سکوں کو کھینچ لے گا لیکن اب اس آواز کو بدلنا مت!"
"ٹھیک ہے۔ " میں نے نہ سمجھ آنے والے انداز میں کہا۔
وہ چلا گیا تو میں تھک کر پھر سے دیوار کے سہارے بیٹھ گیا۔
بلقیس آپا کا کیا قصور تھا؟ ان کا ایک جانب سے جلا چہرہ مجھے پہلے دکھائی کیوں نہ دیا ؟
کاش میں ان کا ساتھ دیتا۔
کیا سرخ رنگ کی چاہ اتنی انہونی تھی کہ اس کی یہ سزا ملی؟
نہیں شاید دوسری بار سرخ رنگ کی چاہ ان کا قصور تھا۔
کیا وہ واقعی قصوروار تھیں؟
مجھے ان کی مسلی خواہشوں کی پتیوں سے ٹپکتے خون میں اپنا چہرہ دکھائی دیا۔
نہیں میرا کیا قصور بھلا؟
"تمہارا بھی حصہ ہے۔ نہ بولنے والا بھی شریک جرم ہوتا ہے۔" میرے اندر سے آواز آئی۔
"ہاں! لیکن صدیوں سے چلے آ رہے ریت رواج میں کیسے بدل سکتا تھا؟" میں نے ہلکی سی مزاحمت کی۔
"یہ بودے بہانے ہیں۔" مذمت ہوئی۔
"ہاں! درست کہا لیکن میں یہاں سے نکلوں تو شاید کچھ کر سکوں۔" میں نے اندر سے ابھرتے سوال کا جواب دیا۔
زندگی کی چاہ بڑھ رہی تھی۔
"مجھے زبردستی کے اندھیرے قبول نہیں۔" میں نے خود سے کہا۔
چھن کی آواز آئی اور ایک اور سکہ میرے قریب آ گرا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے فورا سے بیشتر وہ سکہ اپنی مٹھی میں مقید کر لیا۔ ایک سکے نے دوسرے سکے سے رگڑ کھائی تو ہتھیلی میں روشنی جاگی۔
میں نے مٹھی کھولی ۔
چھن چھن چھنن بہت سے سکے میرے قریب آن گرے۔
میں نے خوشی کے مارے تمام سکوں کو اپنی مٹھیوں میں بھرنا شروع کر دیا۔
ایک دم کمرہ روشنی میں نہا گیا۔ مجھے دروازے سے اپنی بیوی اندر داخل ہوتے دکھائی دی۔ میں نے پیار سے اس کا ہاتھ تھام کر ایک سکہ اس کی مٹھی میں رکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ جاگ اٹھی۔
میں نے اپنے پاس بکھرے دوسرے سکوں پر ایک نگاہ ڈالی۔ ابھی روشنی کے بہت سے سکے بانٹنا باقی تھے۔
(ختم شد)


urdu afsanay, romantic urdu afsanay, urdu-afsanay, short urdu afsanay, mukhtasar urdu afsanay, afsanay urdu adab, urdu afsanay pdf, urdu afsanay list, urdu afsanay read online
Reactions